موٹروے ریپ کیس: ملزمان کا کوڈ ورڈ ’گپ شپ‘ تھا

لاہور موٹروے ڈکیتی اور جنسی زیادتی کیس کے ملزم شفقت علی نے پولیس کو بتایا ہے کہ اس واردات کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو ڈاکوں کے دوران جنسی زیادتی کی لت پڑ چکی تھی۔

موٹروے ریپ کیس میں گرفتار ہونے والے ملزم شفقت علی   (بائیں) نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ اس کا دوسرا ساتھی ملزم عابد ملہی  (دائیں) وقوعہ سے چند رو زپہلے ایک ڈکیتی کیس میں چالان مکمل ہونے پر جیل سے رہا ہو گیا تھا۔(تصاویر: پنجاب پولیس)

پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ لاہور موٹروے پر خاتون کے ساتھ ریپ کرنے والے ملزم عابد ملہی کو ڈاکوں کے دوران جنسی زیادتی کی لت پڑ چکی تھی۔

موٹروے ریپ کیس میں گرفتار ہونے والے ملزم شفقت علی نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ اس کا دوسرا ساتھی ملزم عابد ملہی وقوعہ سے چند روز پہلے ایک ڈکیتی کیس میں چالان مکمل ہونے پر جیل سے رہا ہو گیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’ملزم عابد کو ڈاکوں کے دوران جنسی زیادتی کی لت پڑ چکی تھی۔‘

پنجاب پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے، جو براہ راست موٹروے ریپ کیس کی تفتیش کر رہے ہیں، اس معاملے کی حساس نوعیت کے پیشِ نظر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’اس کیس کا مرکزی ملزم عابد ملہی جو اب تک پولیس کی گرفت میں نہیں آ سکا، اسے جولائی 2020 میں دو دیگر افراد کے ساتھ ہائی وے پر ڈکیتی کے الزام میں شیخوپورہ پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ 25 اگست کو اس کا تین ڈکیتیوں میں چالان مکمل کرکے جیل بھیجا گیا لیکن سانحہ موٹر وے سے 10 روز قبل اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔‘

پولیس افسر نے مزید بتایا کہ محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے سانحہ موٹر وے کے دوسرے ملزم شفقت علی کو دیپال پور، اوکاڑہ میں ان کے گھر سے اتوار کی شام گرفتار کیا اور اسی روز لاہور لا کر  ڈی این اے کا نمونہ لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا۔

پیر کو اس کا ڈی این اے موقع واردات سے اکٹھے کیے گئے دیگر نمونوں سے میچ کر گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ملزم نے بغیر کسی تھرڈ ڈگری تشدد کے اپنا جرم قبول کر لیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ سی ٹی ڈی کے پاس اس کے خلاف کافی شواہد موجود ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ شفقت علی اور عابد ملہی دونوں کا تعلق بہاولنگر سے ہے۔ عابد شیخوپورہ کے فیکٹری ایریا میں ایک کارخانے میں کام کرتا تھا، جہاں شفقت کو بھی نوکری مل گئی اور اس طرح ایک برس قبل ان دونوں کی دوستی ہوئی۔ عابد ایک عادی مجرم تھا اور اس نے شفقت کو بھی اپنے ساتھ چھوٹے موٹے جرائم اور ہائی وے پر ڈکیتیوں میں شامل کر لیا۔ کچھ ماہ بعد شفقت اوکاڑہ چلا گیا کیونکہ اسے وہاں ایک کولڈ سٹور میں کام مل گیا تھا۔ اس کے باوجود وہ اکثر ڈکیتیوں کے لیے عابد سے ملنے آتا تھا۔

مذکورہ پولیس افسر نے بتایا: ’ستمبر کی سات تاریخ کو بھی عابد نے شفقت کو فون کیا اور اسے کہا کہ میری طرف آؤ ’گپ شپ‘ کریں گے۔ یہ لفظ وہ ڈکیتی کے منصوبے کے لیے کوڈ ورڈ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ شفقت اسی شام شیخوپورہ پہنچا، دونوں نے رات اور اگلا دن عابد کے گھر پر گزارا اور آٹھ اگست کی شام کو یہ دونوں گجر پورہ آ گئے۔ عابد نے اپنے تیسرے ساتھی اقبال عرف بالا کو بھی بلایا جو قریبی علاقے لکھو ڈیر میں رہتا تھا تا کہ وہ بھی ان کے ساتھ ڈکیتی کی واردات میں شامل ہو مگر بالا نے مصروفیت کی بنا پر انہیں منع کر دیا۔‘

پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ’دوران تفتیش شفقت نے بتایا کہ اس روز ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ موٹروے کے نیچے واقع انڈر پاس سے گزرنے والے راہ گیروں کو لوٹیں گے۔ وہ اپنے شکار کا انتظار کر رہے تھے جب انہوں نے موٹر وے پر ایک گاڑی کھڑی دیکھی جس کے اشارے جل بجھ رہے تھے۔ عابد موٹر وے پر گیا اور گاڑی کی کھڑکی سے اندر باہر کا جائزہ لیا اور واپس آ کر شفقت کو بتایا کہ ایک اکیلی خاتون گاڑی میں بیٹھی ہیں۔

’دونوں اس خاتون کی گاڑی کے پاس ڈکیتی کی نیت سے پہنچے اور دیکھا کہ خاتون کے علاوہ تین بچے بھی تھے جو سو رہے تھے۔ عابد نے پستول دکھا کر خاتون کو گاڑی کا دروازہ کھولنے کا کہا مگر خاتون کے انکار کرنے پر اس نے پستول کی مدد سے گاڑی کی کھڑکی کا شیشہ توڑ کر دروازہ کھول دیا اور خاتون کو گاڑی سے باہر گھسیٹنے کی کوشش کی۔ اسی دوران خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

’یہ سب دیکھ کر گاڑی میں بیٹھے بچوں نے چیخنا شروع کر دیا جن میں سے ایک بچے کو عابد نے پکڑ لیا۔ خاتون نے اس موقعے پر دونوں ڈاکوؤں کہ کہا کہ وہ ان سے ان کی تمام اشیا یہاں تک کہ گاڑی بھی لے لیں مگر عابد نے شفقت کو انہیں موٹر وے کے ساتھ نچلی طرف درختوں کے جھنڈ میں لے جانے کا کہا۔ یہ سننے پر خاتون نے خود کو عابد کی گرفت سے آزاد کروایا اور وہ دوڑنے لگیں لیکن بچوں کی چیخیں سن کر وہ واپس آئیں۔

’عابد نے اس خاتون کو پھر سے قابو میں کیا اور ان کا بیگ اور دیگر اشیا اٹھائیں جبکہ شفقت نے تینوں بچوں کو گاڑی سے باہر نکالا اور انہیں درختوں کے جھنڈ میں لے گئے۔ خاتون نے شدید مزاحمت کی مگر عابد اور شفقت نے انہیں دھمکایا کہ وہ خاموش رہیں ورنہ وہ ان سب کو جان سے مار دیں گے۔ اس کے بعد شفقت نے تینوں بچوں کو قابو میں کیا اور عابد نے خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کی جس کے بعد یہی عمل شفقت نے دہرایا۔‘

پولیس افسر کہتے ہیں کہ ’جب خاتون پہلی مرتبہ گاڑی سے دور بھاگیں، اسی وقت وہاں سے گزرنے والے ایک شخص نے یہ سب واردات دیکھی اور کچھ گڑبڑ محسوس کرتے ہوئے انہوں نے پولیس ایمرجنسی پر کال کی جس کے بعد ڈولفن سکواڈ وقوعہ پر پہنچی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو عابد اور شفقت دونوں موقعے پر موجود تھے اور خاتون کے بیگ کی تلاشی لے رہے تھے۔ ایک پولیس افسر نے دو ہوائی فائر کیے اور جب عابد اور شفقت بھانپ گئے کہ پولیس آ گئی ہے تو دونوں وہاں سے بھاگ کر درختوں کے گھنے جھنڈ میں چھپ گئے۔ دو گھنٹے وہاں چھپے رہنے کے بعد دونوں ملزمان صبح سات بجے عابد کے گھر پہنچے جہاں سے شفقت اوکاڑہ چلا گیا اور وہاں ایک خفیہ مقام پر چھپ گیا۔

’جائے وقوعہ پر خاتون کے لیے ایک لیڈی پولیس افسر بلائی گئیں جنہوں نے ان سے ابتدائی معلومات حاصل کیں اور حادثے کی جگہ سے نمونے اکٹھے کیے گئے جن کی مدد سے ملزمان تک پہنچنے میں مدد ملی۔‘

پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ’ہم نے شفقت کو عابد کے کال ریکارڈ سے ڈھونڈا۔ اس کا نمبر مسلسل بند تھا تاہم سی ٹی ڈی پولیس اوکاڑہ میں شفقت کے رشتے داروں تک پہنچ گئی تھی جنہوں نے شفقت کو گرفتار کروانے میں مدد کی۔

انہوں نے مزید بتایا: ’دوران تفتیش شفقت نے انکشاف کیا کہ عابد نے اسے اپنی کئی ڈکیتی کی ایسی وارداتوں کی کہانیاں سنائی تھیں جن میں وہ ڈکیتی کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کیا کرتا تھا۔ عابد پہلے بھی کئی مرتبہ گرفتار ہو چکا ہے مگر ہر بار وہ مختلف وجوہات کی بنا پر رہا ہوجاتا تھا۔ اس وقت بھی وہ آزاد گھوم رہا ہے اور ہم اسے جلد ڈھونڈ نکالیں گے۔ اس کیس کی تفتیش کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ عابد صوبہ پنجاب کے دیگر شہروں کے ڈاکوؤں سے بھی رابطے میں تھا۔‘

دوسری جانب آئی جی پنجاب انعام غنی نے بھی اپنے ایک سرکاری بیان میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ موٹر وے سانحے میں ملوث ایک ملزم شفقت علی کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور شفقت علی کا ڈی این اے جائے وقوعہ سے حاصل شدہ ڈی این اے سے مطابقت رکھتا ہے۔

یہاں یہ وضاحت ضروری کہ پولیس کی حراست میں دیے گئے ملزم کے بیان کی بہت زیادہ قانونی اہمیت نہیں ہوتی، کیوں کہ اکثر الزام لگتا ہے کہ ملزم نے تشدد سے بچنے کی خاطر بیان دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کے سامنے ملزم کا کیا موقف ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان