خصوصی طور پر بنائے گئے بیرل میں بیٹھ کر بحرِ اوقیانوس پار کرنے والے 72سالہ فرانسیسی شہری ژاں یاک سیون کا سفر اختتام کے قریب پہنچ گیا۔
سیون نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں بتایا کہ ان کا سفر ختم ہونے والا ہے اور ان کا عزم جواں ہے۔
تقریباً سو دن تک سمندر میں اکیلے رہنے والے سیون کا کہنا ہے کہ انھوں نے طلوع اور غروب آفتاب کے بے حد خوبصورت مناظر کا لطف اٹھایا۔
اس ہفتے اے ایف پی سے سیٹلائٹ ٹیلی فون پر گفتگو میں سیون نے کہا کہ دن تیزی سے گزر رہے ہیں اور وہ پورے سفر میں انہیں مزہ آیا۔
سابق فرانسیسی ایتھلیٹ اور چھاتہ بردار سیون نے 26 دسمبر کو افریقہ کے مغرب میں واقع کنیری جزائر سے بحرِ اوقیانوس میں سفر کا آغاز کیا تھا۔یہ وہی مقام ہے جہاں سے کولمبس نے نئی دنیا کے سفر کا بیڑا اٹھایا۔
سیون کا ارادہ تھا کہ محض سمندر کی موجوں پر تیرتے ہوئے تین ماہ میں جزائر غرب الہند پہنچ جائیں۔
آرپار چلتی زور دار ہواؤں نے ان کے سفر کو تو سست بنا دیا لیکن آزادی کے احساس کے تجربے اور سمندری حیوانات کی بھرپور زندگی کو سراہنے کے ان کے عزم کو متاثر نہیں کر سکیں۔
سیون کا تین میٹر لمبا اور2.10میٹر چوڑا بیرل پلائی ووڈ سے تیار کیا گیا ہے، جس کی بیرون سطح بیروزہ لگا کر محفوظ بنائی گئی ہے۔
450 کلوگرام وزنی بیرل کو سمندری لہروں کے مقابلے اور وہیل مچھلیوں سے بچانے کے لیے بے حد مضبوط بنایا گیا ہے۔
اس کے اندر چھ مربع میٹر جگہ ہے جہاں باورچی خانہ، سونے کی جگہ اور سامان ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔سیون بیرل کے فرش میں بنے سوراخ سے گزرنے والی مچھلیوں کودیکھ سکتے ہیں۔
سیون اب تک چار ہزار کلومیٹر کا سفر کر چکے ہیں۔ان کا اندازہ ہے کہ مزید تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کا سفر باقی ہے۔
سیون کا خیال ہے کہ وہ 20 اپریل تک اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے۔ یہ کون سی منزل ہو گی؟ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے لیکن شاید جموریہ ڈومینیکن۔
سیون کا سفر سکون سے گزرا تاہم انھیں چند ایک بار ناخوشگوار صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ کہتے ہیں : میری صرف آٹھ راتیں مشکل تھیں اور ایک رات تو بہت ہی مشکل تھی۔
فروری میں وہ مال بردار بحری جہاز کی ٹکر سے بال بال بچے۔ یہ جہاز ان کی ریڈیو کالوں کا جواب نہیں دے رہا تھا۔
سیون کے مطابق انھوں نے خوش قسمتی سے روشنی کا گولہ فضا میں چھوڑا۔ یہ اسی طرح تھا کہ جیسے کوئی ریل کی پٹڑی میں پھنسا ہو اور سامنے سے ریل گاڑی آتی دکھائی دے۔
سب سے خطرناک لمحہ 28 مارچ کو آیا جب ان کا بیرل بڑی بڑی موجوں کی زد میں آگیا۔ ان موجوں کی وجہ سے بیرل کے مکمل الٹ جانے کا خطرہ تھا۔
سیون نے اپنے آپ کو حفاظتی رسے کے ساتھ باندھ لیا اور پیپے کو افقی سطح پر متوان بنانے والے آلے کو دوبارہ اپنی جگہ لگانے کی کوشش کی۔ لہروں نے انھیں دور اچھال دیا اور وہ اپنے شانوں کے بل جھولتے رہے۔
بیرل بعض اوقات مکمل طور پر زیر آب بھی آیا۔ ایک آدھ گھنٹے کی تگ و دوکے بعد وہ اپنے آپ کو واپس کھینچنے میں کامیاب ہو گئے۔ انھیں بری طرح خراشیں آئیں۔انھوں نے اپنی تصاویر فیس بک پر بھی پوسٹ کیں۔
سمندری سفرکے دوران ان کے وزن میں چار کلوگرام کی کمی ہوئی۔ اس دوران انھوں نے تازہ بریم مچھلی کے ساتھ ساتھ جما کر خشک کی گئی خوراک بھی استعمال کی۔
جنوبی کیرولائنا کے علاقے چارلسٹن سے آنے والے امریکی بحری جہاز رونالڈ ایچ براون سے آئے شخص نے انھیں کھانے پینے کی اشیا دیں۔
وہ کہتے ہیں: ’انھوں نے میری عادتیں بگاڑ دیں۔مجھے ڈاک، ٹی شرٹس اور بہت ساری چاکلیٹیں ملیں۔ امریکی بحری جہاز سمندر کے مطالعے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: میں اپنا سفر مارتینیک یا گواد لوپ میں ختم کرنا چاہوں گا۔ وہاں سے گھر واپس پہنچنے کے لیے انھیں بحری جہاز آسانی سے مل جائے گا کیونکہ یہ سمندر پار فرانسیسی علاقے ہیں۔
سیون سمندری سفرکے بعد کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن اس سے پہلے انھیں ایک اور چیلنج دکھائی دے رہا ہے۔ یہ چیلنج رودبارِ برطانیہ (انگلش چینل) کو اکیلے تیر کر پار کرنے کا ہے۔