پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے حالیہ دنوں میں عسکری قیادت سے ملاقاتوں کے حوالے سے ہونے والی قیاس آرائیوں پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ آئندہ ہماری جماعت کا کوئی رکن، انفرادی، جماعتی یا ذاتی سطح پر عسکری اور متعلقہ ایجنسیوں کے نمائندوں سے ملاقات نہیں کرے گا۔
جمعرات کو ٹوئٹر پر جاری کیے گئے بیان میں نواز شریف نے کہا کہ ’حالیہ واقعات سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح بعض ملاقاتیں سات پردوں میں چھپی رہتی ہیں اور کس طرح بعض کی تشہیر کرکے مرضی کے معنی پہنائے جاتے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’یہ کھیل اب بند ہوجانا چاہیے۔‘
نواز شریف کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ روز پاکستانی ذرائع ابلاغ پر سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ملاقاتوں کی خبریں گردش کرتی رہیں۔
پہلے پہل بدھ کو سیاسی قیادت کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے بارے میں خبر سامنے آئی اور بعد میں مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی بھی آرمی چیف اور ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ساتھ ملاقاتوں کا احوال سامنے آیا۔
محمد زبیر اور عسکری قیادت کے درمیان ملاقاتوں کے بارے میں پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا تھا۔
پاسداری یاد کرانےکےلئے آئیندہ ہماری جماعت کا کوئی رکن،انفرادی،جماعتی یا ذاتی سطح پر عسکری اور متعلقہ ایجنسیوں کےنمائندوں سے ملاقات نہیں کرے گا۔قومی دفاع اور آئینی تقاضوں کےلئے ضروری ہوا تو جماعتی قیادت کی منظوری کےساتھ ایسی ہر ملاقات اعلانیہ ہوگی اور اسےخفیہ نہیں رکھا جائے گا۔2/2
— Nawaz Sharif (@NawazSharifMNS) September 24, 2020
تاہم اس حوالے سے آج نواز شریف نے سلسلہ وار ٹویٹس میں آئندہ ایسی ملاقاتیں نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ ’آج میں اپنی جماعت کو ہدایات جاری کر رہا ہوں کہ آئین پاکستان کے تقاضوں اور خود مسلح افواج کو اپنے حلف کی پاسداری یاد کرانے کے لیے آئندہ ہماری جماعت کا کوئی رکن، انفرادی، جماعتی یا ذاتی سطح پر عسکری اور متعلقہ ایجنسیوں کےنمائندوں سے ملاقات نہیں کرے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قومی دفاع اور آئینی تقاضوں کے لیے ضروری ہوا تو پارٹی قیادت کی منظوری کے ساتھ ایسی ہر ملاقات اعلانیہ ہوگی اور اسے خفیہ نہیں رکھا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ محمد زبیر اور عسکری قیادت کے درمیان ملاقات کے بارے میں پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ان دونوں ملاقاتوں میں نواز شریف اور مریم نواز کے حوالے سے ہی بات چیت ہوئی تھی۔‘
پاکستانی فوج کے ترجمان نے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان ملاقاتوں کی درخواست خود محمد زبیر نے کی تھی۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے آرمی چیف سے ملاقات میں اپنی جماعت کے رہنماؤں کے لیے کسی رعایت کا نہیں کہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد زبیر نے کہا کہ ان کے آرمی چیف سے 40 سال پرانے تعلقات ہیں اور یہ پہلا موقع نہیں تھا جب انہوں نے جنرل باجوہ سے ملاقات کی۔
اس کے علاوہ سیاسی قیادت اور عسکری قیادت کے درمیان ملاقات کی خبروں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے گلگت بلتستان میں انتخابات اور اس خطے کی صورت حال کی وجہ سے سیاسی قیادت سے ملاقات کی۔
جبکہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور پارلیمانی رہنماؤں کی ملاقات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'جنرل ہیڈ کوارٹرز کو سیاسی قیادت کو اس طرح بلانا چاہیے اور نہ ہی سیاسی قیادت کو ایسی ملاقات میں جانا چاہیے۔'
انہوں نے کہا کہ ’گلگت بلتستان ایک سیاسی معاملہ ہے، جو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے جی ایچ کیو میں نہیں۔‘
اس سے قبل بدھ کو ہی مریم نواز نے عسکری قیادت سے ’نواز شریف کے نمائندے‘ کی ملاقات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کے کسی نمائندے کی فوجی قیادت سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔