24 سالہ عروہ احمد نے جب ڈیرہ اسماعیل خان کے دور افتادہ علاقے کلاچی سے گومل یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو وہ اپنے علاقے سے شاید پہلی خاتون تھیں، جنہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے گاؤں سے باہر کا رخ کیا۔ عروہ نے نہ صرف صنفی عدم مساوات اور معاندانہ معاشرتی رویوں کا مقابلہ کیا بلکہ ان میں تبدیلی لانے میں بھی کامیاب رہی۔
کلاچی خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا ایک چھوٹا اور پسماندہ گاؤں ہے اور ڈیرہ شہر سے تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں کے لوگوں کی ذرائع آمدنی زراعت پر منحصر ہے۔ پاکستان کے دیگر دیہات کی طرح کلاچی کی عورتیں بھی زیادہ تر امور خانہ داری تک محدود ہیں اور گھروں سے باہر ان کی نقل و حرکت مردوں کی نسبت کم نظر آتی ہے جبکہ لڑکیوں کی شرح خواندگی صرف 30 فیصد ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود بھی کلاچی سے تعلق رکھنے والی ایک نڈر لڑکی نے وہاں صنفی عدم مساوات کی تعریف اور تاریخ دونوں بدل ڈالی۔
عروہ احمد مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے والد اپنے علاقے کی ایک نامور مذہبی شخصیت ہیں، لیکن گاؤں والوں کی تنقید کے باوجود انہوں نے بنیادی تعلیم گاؤں سے مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے شہر کا رخ کیا اور گومل یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ وہ روز گاؤں سے یونیورسٹی تک دو گھنٹوں کا سفر طے کرتیں اور انہیں یونیورسٹی لے جانے اور گھر لانے کا بیڑہ ان کے والد نے اٹھایا۔
عروہ کے مطابق جب انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے شہر جانے کا سوچا تو کلاچی میں یہ ایک نیا تصور تھا۔ لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی کہ ایک لڑکی اور وہ بھی مذہبی گھرانے سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے شہر کیسےجاسکتی ہے، لیکن اصل تنقید کا سامنا انہیں تب ہوا جب انہوں نے عملی صحافت میں قدم رکھا۔
وہ کہتی ہیں کہ تنقید کے باوجود بھی وہ پرعزم رہیں۔ عروہ نے صحافت کے آغاز میں اپنے علاقے کے مسائل بالخصوص خواتین سے متعلق مسائل اجاگر کرنا شروع کیے اور خوش آئند بات یہ تھی کہ وہ مسائل حل بھی ہوئے۔
عروہ نے بتایا: 'جب میں نے صحافت کا آغاز کیا تو لوگوں نے مجھے خوب طنز و تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن میں یہ سوچ کر آئی تھی کہ اپنے گاؤں میں خواتین کے حقوق اور تعلیم پر خاص توجہ دوں گی اور صحافت کے ذریعے ان کے لیے آواز بلند کروں گی اور میں نے ایسا ہی کیا۔ میں نے خواتین کے لیے فلاحی کام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے روزگار بڑھانے میں بھی مدد کی تاکہ وہ خود مختار بنیں۔'
'جب ان کے مسائل حل ہونا شروع ہوئے تو لوگوں نے مجھے تسلیم کرنا شروع کیا۔ مجھ پر بی بی سی اردو اور دیگر قومی چینلز نے رپورٹس بھی بنائیں 2019 میں، میں نے نجی ادارے کے لیے ویڈیو رپورٹ بنائی جس میں، میں پوزیشن ہولڈر رہی ۔اب میں اپنے علاقے میں پہچانی جانے لگی اور لوگ اپنے مسائل لے کر میرے پاس آتے ہیں تاکہ میں اپنی صحافت کے ذریعے ان کی آواز اعلیٰ عہدیداران تک پہنچا سکوں۔'
عروہ نے مزید بتایا: 'لیکن میرے لیے خوشی کا لمحہ وہ تھا جب میری کاوشیں رنگ لانے لگیں اور گاؤں کے والدین کو یہ احساس ہونے لگا کہ لڑکیوں کی تعلیم کس حد تک ضروری ہے۔ تعلیم کے ذریعے نہ صرف وہ اپنے بلکہ اوروں کے حقوق کے لیے بھی آواز بلند کر سکتی ہیں۔ چنانچہ اب گاؤں میں صنفی مساوات کو لے کر شعور بیدار ہو رہا ہے اور لڑکیوں کی شرح خواندگی بھی بڑھ رہی ہے۔ مجھے بہت اطمینان ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی اور گاؤں میں والدین کا لڑکیوں کی تعلیم کی طرف رجحان بڑھانے میں میرا کردار رہا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی گاؤں کی رہائشی ایک خاتون سعدیہ نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں یہ بات اچھی نہیں سمجھی جاتی تھی کہ لڑکیاں دوسرے شہر جائیں اور تعلیم حاصل کریں لیکن عروہ سے متاثر ہو کر والدین کا ذہن بدل رہا ہے۔ 'میرے شوہر ایک مولوی اور حافظ قرآن ہیں اور ہم نے اپنی بیٹی مریم کو پڑھانے کا سوچا۔ میری بیٹی نے ایف ایس سی میں ٹاپ 20 پوزیشن حاصل کی اور سکالر شپ ملنے پر اب ہم اسے اسلام آباد کی مشہور یونیورسٹی سے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مریم بھی عروہ کی طرح لوگوں کے حقوق کی نمائندگی کرے۔'
فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو سے لے کر ملالہ یوسفزئی اور پاکستان کی پہلی خاتون لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر تک ہمارے ملک میں خواتین ہمیشہ سے ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی آرہی ہیں۔ اگر انہیں تعلیم دلوانے کی بجائے گھروں میں بٹھا دیا جاتا تو پاکستان کے پاس یہ انمول ہیرے موجود نہ ہوتے۔
والدین کو سمجھنا چاہیے کہ ان نا انصافیوں اور صنفی عدم مساوات کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کی بیٹی کو بیٹوں سے زیادہ آپ کی توجہ کی ضرورت ہے۔ زیادہ نہیں مگر برابر توجہ ضرور دیں۔