گوادر کے لوگ پوچھتے ہیں: کیا ہوا تیرا وعدہ؟

گودار کو سی پیک منصوبے کے تحت سنہرے باغ دکھائے گئے مگر ٹارچ لے کر بھی گودار جائیے تو ان منصوبوں کا زمین پر نشان نہیں ملے گا۔

سی پیک کے تحت گودار یونیورسٹی کا وعدہ ابھی تک ہواؤں میں ہے (شاہد مجید)

گوادر کی چند کلومیٹر روشن اور کشادہ سڑکیں، اخبارات میں لگے منصوبوں کی تصاویر اور کچھ بنائی ہوئی مثبت خبروں کے پیچھے کی اصل گوادر انتہائی مایوس کن، بدحال، مافیاز اور اشرافیہ کے زیر چھنگل بھوکا، بیمار، بے تعلیم اور پسماندہ انسانوں کی پرامن بستی ہے۔

یہاں ایسے مافیاز مسلط ہیں جو زمینوں کی کاروبار کی طرح ضمیروں کا بھی سوداگر ہیں۔ یہ زرخیز سمندر اور امیر سرحدی علاقہ بلوچستان کی بدحال، بے روزگار، ناخواندہ اور بنیادی سہولیات سے محروم ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔

یہاں کی سیاست پر ایسے اشرافیہ کا قبضہ ہے جو کل عمان کے والیوں کے تابع دار تھے اور آج اداروں کے۔ جن کی تمام تر سیاست مختلف ایام کے لیے ریلیاں نکالنا اور سٹیٹ ایجنسیوں کا کاروبار سنبھالنا ہے۔

مقامی ماہی گیروں کی زندگی جیسے سمندر میں مسافروں کی طرح گزرتا ہے ویسے ہی نسل درنسل اس بستی میں بھی مسافروں کی طرح گزر رہا ہے۔ یہاں باقاعدگی سے الیکشن بھی ہوتے ہیں۔ آل پارٹیز کے نام دھرنے و جلوس بھی وقتا فوقتا ہوتے رہتے ہیں اور باقی بلوچستان کی نسبت یہاں الیکشن کے وقت دھاندلی کے الزامات بھی اس قدر نہیں لگتے کہ کہا جا سکے خفیہ اداروں نے منتخب امیدوار کو جتوا کر اسمبلی تک بیجھا ہے مگر پھر بھی یہ کم آبادی پر مشتمل ضلع دور جدید کے تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔

گذشتہ دنوں میں ایک انٹرویو دینے گیا تھا جہاں کئی دوسرے سولات میں سے ایک سوال مجھے گوادر سے متعلق بھی کیا گیا کہ گوادر کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ یہ سوال نیا تھا اور نہ ہی عجیب، مگر سوچنے پر مجبور کر دینے والا ضرور تھا کیونکہ کوئی ایک مسئلہ ہو یا چند مسئلے ہوں تو بتائے جا سکتے ہیں لیکن خود لفظ گوادر ہی مسائل کی علامت ہو تو کیا بیان کیا جائے؟

سی پیک منصوبے میں کئی پروجیکٹس کے نام بتائے جاتے ہیں مگر ایک عام گوادری کو سوائے ایک پرائمری اسکول ’پاک چائنا پرائمری سکول‘ جسے اپ گریڈ کر کے مڈل کا درجہ دیا گیا ہے اور ایک ٹیکنیکل کالج کے، ٹارچ لے کر دیکھنے سے بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آج بھی زچگی کے کیس کراچی شفٹ کرائے جاتے ہیں جن میں کئی بدقسمت مائیں راستے میں ہی دم توڑ دیتی ہیں۔ ماہی گیر آج تک اپنے قانوناً مزدور ہونے کے شناخت سے محروم غیر قانونی ٹرالر اور مقامی فش فیکٹریوں کے استحصال کا شکار ہیں۔

تعلیم کے شعبے میں یہ مکران ڈویژن کا سب سے ناخواندہ ترین ضلع ہے۔ بنیادی تعلیم پرائمری سے میٹرک تک سکول بنیادی سہولیات، اساتذہ کی کمی جیسے مسائل کا شکار ہیں لیکن پھر بھی اگر یہاں کے بچے شہر کی ایک ڈگری کالج تک پہنچ جاتے ہیں تو آگے اعلیٰ تعلیم کی سفر کو جاری نہ رکھتے ہوئے تعلیم کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ اس بدحال شہر کے باسیوں کے لیے دو وقت روٹی کا ذریعہ یا تو ماہی گیری ہے جسے اب ٹرالرز نے سمندر کو بانجھ کر کے رکھ دیا ہے یا ایران بارڈر جو موت کے کنویں سے گزرنے جیسا ہے یا اپنی زمینوں کو بیچ کر کھانا۔

سی پیک کے وقت بلند و بانگ دعووں میں گوادر یونیورسٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا اور فوری طورپر تربت یونیورسٹی کا چار ڈپارٹمنٹس پر مشتمل ایک کیمپس کا اجراح کیا گیا مگر یہ کیمپس ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھانے کے اور کھانے کے اور کی طرح ثابت ہوا۔ سارے کے سارے سی پیک میں سے گوادر کے لیے بس یہی چار ڈپارٹمنٹس پر مشتمل کیمپس ہی رہا۔ اب بھی وقتاً فوقتاً گوادر کے عوام کو ان کی پسماندگی اور بدحالی کی یادیں تازہ کرانے کے لیے کئی مرتبہ اسمبلی میں گوادر یونیورسٹی کا موضوع چھیڑا جاتا ہے اور پھر لمبے عرصے تک کے لیے ’خاموشی عبادت ہے‘ پر عمل کیا جاتا ہے۔

نئے تعلیمی سال کے آغاز پر اس وقت تربت یونیورسٹی گوادر کیمپس میں داخلوں کا آغاز ہوا ہے جہاں کے چار ڈپارٹمنٹس میں داخلوں کے لئے مہم چلائی جا رہی ہے۔ ان چار ڈپارٹمنس کو اب مقامی طالب علم اپنے اوپر ایسے مسلط سمجھتے ہیں کہ اگر داخلہ نہ لیا تو شاید یہ بھی ہاتھ سے نکل جائے اور اگر داخلہ لیں تو ان چار ڈپارٹمنس میں ہی کیوں؟ اس لیے گوادر کے نوجوان اسی مہم میں گوادر کو یونیورسٹی چاہیئے کی مہم بھی چلا رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر ایش ٹیگ #Gwadarneedsuniversity کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ حکام بالا کو اپنا وعدہ یاد دلایا جائے اور انھیں احساس ہو کہ ہاں سی پیک کے منصوبوں میں جامعہ گوادر بھی شامل تھا۔

یہاں کا بے روزگار ماہی گیر اپنی دوائیوں کے پیسوں کے لیے کسی میر، وزیر و نمائندے کے در پر ٹھوکریں کھا کر اذیت زدہ زندگی پہلے سے گزار رہا ہے اب ان کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک کے بڑے شہروں میں تعلیمی خرچے کے لیے کون سے در کھٹکٹائے، تاکہ اگر وہ بھوکا سوئے بھی تو اپنے بچوں کو کم از کم گوادر یونیورسٹی تک تو داخلہ دلوا سکے۔

گوادر یونیورسٹی گوادر کے نوجوانوں کا خواب ہے جسے وہ پایۂ تکمیل تک پہنچتا دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اعلیٰ تعلیم تک رسائی اس بستی کے بدقسمت شہریوں کی پہنچ سے دور ہے۔

گوادر کے ماہی گیروں کے بچے ریاست سے فقط ایک یونیورسٹی مانگ رہے ہیں۔

(تصویر شاہد مجید)

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ