بھارت میں ایک دلت لڑکی کے مبینہ گینگ ریپ کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ پانچ سینیئر پولیس افسران کو واقعے کی تحقیقات میں غفلت برتنے پر معطل کر دیا گیا ہے۔
گینگ ریپ کے تازہ واقعے کی وجہ سے پورے بھارت میں غم و غصہ پایا جاتا اور جس سے ملک گیر مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔
بھارت کی سب سے گنجان آباد ریاست اتر پردیش میں ’پسماندہ‘ ذات سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ نوجوان لڑکی کو گذشتہ ماہ ستمبر میں مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا کر زخمی حالت میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ بعد میں اس لڑکی نے رواں ہفتے دہلی کے ایک ہسپتال میں دم توڑ دیا۔
لڑکی کی ہلاکت نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا جس کے بعد ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔
پولیس نے مبینہ گینگ ریپ اور قتل کے الزام میں ’اعلیٰ‘ ذات کے چار افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
لیکن پولیس کی جانب سے متاثرہ خاندان کی مرضی اور مذہبی روایات کے برخلاف لڑکی کی چتا کو آدھی رات کو مبینہ طور پر پیٹرول سے نذر آتش کرنے پر ریاستی پولیس کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
عوام میں مزید اشتعال اس وقت پھیلا جب ریاستی پولیس کے ایک سینیئر پولیس اہلکار نے یہ دعویٰ کیا کہ فرانزک رپورٹ اور پوسٹ مارٹم سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ خاتون کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی تھی۔
پولیس کا یہ بیان متاثرہ خاتون اور ان کی والدہ کے بیانات سے متصادم ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ فرانزک ٹیسٹ حملے کے طویل عرصے بعد کیے گئے تھے۔
مزید ستم ظریفی یہ کہ سیکڑوں پولیس اہلکاروں نے متاثرہ خاندان کے گاؤں سے باہر نکلنے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے اور صحافی اور حزب اختلاف کے سیاستدانوں کو ان سے ملنے سے روکا جا رہا ہے۔
یہی نہیں بلکہ متاثرہ خاندان کے افراد کے موبائل فون بھی قبضے میں لے لیے گئے ہیں۔
متاثرہ لڑکی کے بھائی نے بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ ان کے خاندان کے افراد کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جس کے بعد مقامی ہائی کورٹ نے اس خاندان کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔
دوسری جانب خب رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہمناؤں کو متاثرہ لڑکی کے گھر کے قریب ہی روک لیا گیا اور انہیں خاندان سے ملنے نہیں دیا گیا۔
دہلی کے علاوہ مشرقی شہر کولکتہ میں بھی مرکزی حزب اختلاف کانگریس پارٹی کے کارکنوں نے اس واقعے کے خلاف احتجاج کیا۔ پولیس نے کانگریس پارٹی کے رہنماؤں جن میں پرینکا اور راہول گاندھی شامل ہیں کو یو پی کے گاؤں میں متاثرہ خاندان سے ملنے سے روک دیا تھا۔
تاہم بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق کانگریس رہنما راہول گاندھی آج دوبارہ متاثرہ خاندان سے بات کرنے کے لیے ہتھ راس گاؤں جانے والے ہیں۔
اسی حوالے سے بھارتی سوشل میڈیا پر ہتھ راس اور راہول گاندھی ٹرینڈ کر رہے ہیں اور صارفین ہیش ٹیگ ’راہول جی نہیں رکیں گے‘ کے ساتھ ٹویٹس کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مظاہروں اور سخت تنقید کے بعد اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بالآخر ضلعی پولیس سربراہ اور چار دیگر افسران کو معطل کرنے کا اعلان کیا جسے ناقدین دکھاوا اور ناکافی قرار دے رہے ہیں۔
جمعہ کی شب تازہ ترین مظاہرے میں دارالحکومت کے وزیر اعلیٰ اور ممتاز دلت سیاستدان اروند کیجروال سمیت سینکروں افراد انصاف کے لیے وسطی نئی دہلی میں جمع ہوئے۔
دہلی احتجاج میں شامل ایک خاتون سنسکرتی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم (خواتین) دراصل آج بھی آزاد نہیں ہیں حالانکہ ہمارا وطن آزاد تصور کیا جاتا ہے۔‘
نیشنل کرائم بیورو کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ سال بھارت میں ہر روز اوسطاً 87 خواتین کا ریپ کیا گیا لیکن سمجھا جاتا ہے کہ بڑی تعداد میں ایسے واقعات کی رپورٹ ہی نہیں کی جاتی۔