سوڈان کی فوج نے کئی ماہ کے مظاہروں کے بعد گذشتہ 30 برس سے اقتدار پر براجمان صدر عمر البشیر کو عہدے سے ہٹاکر گرفتار کرلیا۔
سرکاری ٹیلیویژن پر اپنے بیان میں سوڈان کے وزیر دفاع اور آرمی چیف احمد عوض ابن عوف نے ایک ماہ تک رات کے کرفیو اور تین ماہ کی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ فوجی کونسل ملک پر دوسال تک حکمرانی کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی فضائی حدود 24 گھنٹے کے لیے بند رہے گی جبکہ سرحدیں بھی اگلے نوٹس تک بند کی جارہی ہیں۔
دبئی کے ایک نیوز چینل الہادۃ نے سوڈان کے مرکزی اپوزیشن لیڈر کے بیٹے کے حوالے سے بتایا کہ عمر بشیر کو ان کے سیاسی ساتھیوں کے ہمراہ گھر میں نظر بند کیا جارہا ہے۔
جبکہ احمد عوض ابن عوف نے کہا کہ عمر بشیر کو ’ایک محفوظ مقام‘ پر رکھا جائے گا۔
فوج کی جانب سے صدر عمر بشیر کے اقتدار کا تختہ الٹنے کے اعلان کے بعد دارالحکومت خرطوم میں جشن کا سا سماں دیکھا گیا اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے، تاہم بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ خوشی عارضی ہے کیونکہ سوڈان میں فوج کئی عشروں تک اقتدار پر قابض رہی ہے اور اس نے متعدد مرتبہ سویلین حکومتوں کا تختہ الٹا ہے۔
بہت سارے مظاہرین کا خیال ہے کہ فوج کا یہ اقدام بالکل ایسا ہی ہے، جو عرب دنیا میں ’مصری منظرنامے‘ کے نام سے مشہور ہے اور جس میں فوج کسی صدر کو ہٹا کر اس کی جگہ اپنے ہی کسی بندے کو عہدے پر بٹھا دیتی ہے۔
سماجی کارکن اور صحافی احمد محمود نے دی انڈپینڈنٹ کو ٹیلیفونک انٹرویو کے دوران بتایا: ’جب میں نے جنرل ابن عوف کو ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے دیکھا تو مجھے لگا کہ یہ اُسی دور کا دوبارہ سے آغاز ہے، جس کے خلاف ہم کئی ماہ سے لڑ رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’حقیقت میں ہر کوئی آرمی چیف کے خطاب کے بعد یہ نعرے لگا رہا ہے کہ ہم ابن عوف کو قبول نہیں کریں گے، ہمیں یہ نئی حکومت منظور نہیں ہے۔‘
احمد نے کہا: ’ہمیں سویلین عبوری حکومت چاہیے، ہم عبوری فوجی حکومت کے حق میں نہیں ہیں۔‘
سوڈان میں صدر کے خلاف مظاہروں میں پیش پیش رہنے والی خاتون عالہ صلاح، جن کی نعرے لگاتی ہوئی ایک ویڈیو گذشتہ دنوں وائرل ہوئی تھی، نے بھی سویلین حکومت کا مطالبہ کیا۔
عالہ نے ٹوئٹر پر لکھا: ’اس طرح تبدیلی نہیں آئے گی کہ عمر البشیر کی حکومت کو فوجی بغاوت کے ذریعے ہٹا کر سوڈانی شہریوں کو دھوکہ دیا جائے۔ ہمیں اقتدار کی منتقلی کے لیے ایک سویلین کونسل چاہیے۔‘
The people do not want a transitional military council. Change will not happen with Bashir’s entire regime hoodwinking Sudanese civilians through a military coup. We want a civilian council to head the transition. #Sudan
— Alaa Salah (@iAlaaSalah) April 11, 2019
انہوں نے ایک ویڈیو بھی شیئر کی، جس کے ساتھ انہوں نے لکھا، ’جدوجہد جاری رہے گی۔‘
the struggle continues... #thawra #Sudan pic.twitter.com/zJ91Xqsew5
— Alaa Salah (@iAlaaSalah) April 11, 2019
سوڈانی فوج کی جانب سے رات 10 بجے کے بعد سے کرفیو کے نفاذ کے باوجود لوگ مظاہروں اور دھرنوں میں شریک ہو رہے ہیں۔
کچھ مظاہرین نے فوجی ہیڈکوارٹرز کے سامنے کھڑے ہوکر نعرے لگانا شروع کیے، ’ہم یہاں سے نہیں جائیں گے، ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔‘
سوڈان کا پرچم تھامے ایک خاتون حبا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’جب ابن عوف نے اعلان کیا تو میں رو پڑی تھی، ہم نے اس تحریک کے دوران اپنے دوستوں کو کھویا ہے، ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی جانیں ناحق ضائع ہوئیں، لیکن ہم فتح تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘
ایک اور خاتون نے کہا: ’ ابن عوف اور عمر بشیر ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت ہمارے ساتھ کھیل کھیل رہی ہے۔‘