صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں حکام کے مطابق ہزار گنجی فروٹ اور سبزی منڈی میں ہونے والے دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 20 ہو گئی ہے جبکہ اس حملے میں 48 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
جمعہ کی دوپہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو نے ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ خودکش دھماکہ تھا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے آٹھ افراد اور دو بچے بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل ڈی آئی جی بلوچستان عبدالرزاق چیمہ کا کہنا تھا کہ یہ دھماکہ صبح سات بج کر 35 منٹ پر ہوا، اور ابتدائی رپورٹ کے مطابق دھماکہ خیز مواد کسی بوری میں چھپایا گیا تھا۔
ڈی ائی جی کوئٹہ کے مطابق ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد ہر صبح ایک کاروان کی صورت میں منڈی سے سبزی اور فروٹ خریدنے آتے ہیں اور ان کے ساتھ پولیس اور ایف سی کے اہلکار موجود ہوتے ہیں۔
’آج بھی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کل 55 افراد 11 گاڑیوں میں یہاں آئے جب دھماکہ ہو گیا۔‘
کوئٹہ میں ہزار برادری سے تعلق رکھنے والے محمد علی معمول کے مطابق سبزی منڈی ہزار گنجی پہنچے تو وہاں زور دار دھماکہ جس میں ان کے ساتھ آنے والے رمضان زخمی ہوئے تاہم وہ خود محفوظ رہے۔
محمد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں اور میرے دوسرے ساتھی پولیس سکواڈ میں سبزی خریدنے جیسے ہی منڈی پہنچے تو وہاں پر کچھ لوگ آلو کی بوریوں کو ترتیب سے رکھ رہے تھے ایسے میں اچانک ایک دھماکہ ہوا اور ہر طرف لاشیں بکھر گئیں۔‘
دھماکے کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز اور امدادی ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں اور لاشوں اور زخمیوں کی ہسپتال منتقلی شروع کردی گئی۔ ٹراما سینٹر کے سنیئیر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر حیدر خان نے بتایا کہ ’ہمارے پاس آٹھ زخمیوں کو لایا گیا جن میں سے پانچ کی حالت تشویشناک ہے۔‘
دوسری جانب علاقے کو سیل کرکے شواہد اکھٹے کرنے کا آغاز بھی کردیا گیا۔
کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر بڑی تعداد میں ہزارہ برادری آباد ہے جن کے لوگ اپنے دکانوں کے لیے سبزی خریدنے کے لیے اس منڈی کا رخ کرتے ہیں اور ماضی میں بھی ہزارہ برادری کے کاروبار کرنے والے افراد پر اس طرح حملے ہوتے رہے ہیں۔
مارچ 2018 میں قومی کمیشن برائے حقوق انسانی نے بلوچستان میں مقیم ہزارہ قبیلے کے افراد کو درپیش صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ صوبے میں گذشتہ پانچ برس کے دوران ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے مختلف واقعات میں ہزارہ برادری کے 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔