ایک تفصیلی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ہر پانچ میں سے ایک نوعمر لڑکی سوشل میڈیا پر ہراسانی کے بعد یا تو سوشل میڈیا چھوڑ چکی ہے یا اس کا استعمال محدود کر چکی ہے۔
ری سرچرز کی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ زیادہ آمدنی اور کم آمدنی والے دونوں قسم کے خاندانوں سے تعلق رکھنے نوعمر لڑکیوں کو پورنو گرافک تصاویر اور غیر مطلوبہ پیغامات بھیجے جاتے ہیں، اس کے علاوہ انہیں سائبر سٹاکنگ یعنی آن لائن ہراسانی کے ساتھ ساتھ کئی قسم کے آن لائن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پلان انٹرنیشنل، جس کے سروے میں 22 ممالک سے تعلق رکھنے والی 15 سے 25 سالہ 14 ہزار لڑکیوں نے حصہ لیا، کے مطابق نصف سے زائد کم عمر اور نوعمر لڑکیوں کو انٹرنیٹ پر یا تو ہراساں کیا جا چکا ہے یا ان کے ساتھ بد سلوکی کی گئی ہے۔
یہ اس حوالے سے اب تک کی جانے والی سب سے بڑی تحقیق ہے، جس کے مطابق پانچ میں سے ایک لڑکی آن لائن بدسلوکی کے بعد اپنی یا اپنی دوست کی جسمانی حفاظت کے حوالے سے پریشانی کا شکار ہوئی۔
پلان انٹرنینشل کی سی ای او این برگیٹی البرٹسن کا کہنا ہے کہ تمام براعظموں سے تعلق رکھنے والی خواتین ایک ہی طرح کی ہراسانی اور امیتازی سلوک سے متاثر ہو رہی ہیں۔ 'انہیں آن لائن تشدد کا سامنا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے جو کہ ان کی صحت اور اعتماد کے لیے برے نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ یہ حملے گو کہ جسمانی نہیں لیکن یہ دھمکی آمیز اور مسلسل ہیں جو لڑکیوں کے آزادی اظہار کو محدود کرتے ہیں۔
’خواتین کو آن لائن مقامات سے باہر دھکیلنا ان کو کمزور کرنے جیسا ہے جو ایک بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل دنیا میں ان کی صلاحیتوں کے اظہار کو دیکھنے، سننے اور ان کے رہنما بننے کی راہ روکتا ہے۔ یہ مایوس کن ہے کہ انہیں اس آن لائن تشدد کا سامنا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے یہ ان کی صحت اور اعتماد کے لیے نقصان دہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ کووڈ 19 کی وجہ سے ہم پہلے ہی زیادہ وقت آن لائن گزارنے پر مجبور ہیں اور دنیا بھر انٹرنیٹ کی رسائی بہتر ہونے کی وجہ سے اب وقت آ چکا ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اپنے صارفین کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائیں۔‘
فیس بک وہ پلیٹ فارم ہیں جہاں یہ حملے سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ 39 فیصد خواتین کے مطابق انہیں فیس بک پر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن انسٹا گرام، وٹس ایپ، ٹوئٹر، سنیپ چیٹ اور ٹک ٹاک، سب پر ہی بدسلوکی کے واقعات پیش آئے ہیں۔
ایسے واقعات کا نشانہ بننے والی دو تہائی خواتین کا کہنا تھا کہ وہ بدزبانی اور بد سلوکی کا نشانہ بن چکی ہیں جبکہ 40 فیصد کے مطابق انہیں جان بوجھ کر شرمندگی کا احساس دلایا گیا۔
39 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں جنسی تشدد کی دھمکیاں دی گئیں جبکہ اتنی ہی تعداد کی خواتین کو ان کی جسمانی ساخت کی بنیاد پر مزاق یا تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
سوڈان سے تعلق رکھنے والی 20 سالہ لڑکی، جس نے ری سرچرز کو نوعمری میں اپنے آن لائن تجربات سے آگاہ کیا، کا کہنا تھا کہ 'مجھے لڑکوں کے بہت سے ایسے پیغامات ملتے جس میں وہ مجھ سے برہنہ تصاویر کا مطالبہ کرتے یا میری پوسٹ کی جانے والی تصاویر کو ایڈٹ کر کے پھیلا دینےکی دھمکی دے کر بلیک میل کرتے اگر میں نے ان کی کوئی بات نہ مانی۔
’مجھے بہت سے پیغامات آتے تھے جن میں لڑکے برہنہ تصاویر مانگتے تھے یا عام طور پر بات کرتے ہوئے وہ میرے بارے میں غلط الفاظ کا استعمال کرتے۔ بہت چھوٹی عمر میں سچی بات ہے کہ یہ بہت اذیت ناک تھا۔ سوشل میڈیا کا استعمال کرنا میری زندگی کا بدترین وقت تھا۔ یہ نو سے 14 سال کی عمر کے درمیان کی بات ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک تہائی لڑکیاں، جو کسی نسلی اقلیت سے تعلق رکھتی ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی قومیت یا نسل کی بنیاد پر بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں نصف سے زائد ایل جی بی ٹی پلس ہیں اور ان کے مطابق انہیں اپنی جنسی شناخت یا جنسی رجحان پر ہراساں کیا گیا۔
ایکواڈور سے تعلق رکھنے والی ایک 17 نوجوان خاتون نے ری سرچرز کو بتایا کہ 'میں انہیں بلاک کر دیتی لیکن وہ مزید پروفائلز بنا کر مجھے میری ہی تصاویر بھیجتے رہتے۔‘
سروے میں حصہ لینے والی 10میں سے چار خواتین کے مطابق آن لائن بدسلوکی ان کی ذہنی صحت کو متاثر کر کے انہیں ذہنی دباؤ میں مبتلا کرتی ہے جبکہ اتنی ہی تعداد کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیز کو خواتین کو بدسلوکی سے بچانے کے لیے مزید اقدامات لینے ہوں گے۔
یہ تحقیق پلان انٹرنیشنل یوکے کی جنوری میں کی جانے والی اس ری سرچ کے بعد سامنے آئی، جس کے مطابق ایک تہائی خواتین اور لڑکیوں کو پبلک مقامات پر غیر مطلوبہ جنسی افعال یا ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مقامات میں بس سٹاپ، پارک یا گلیاں شامل ہیں۔
سروے میں شامل 35 فیصد خواتین کے مطابق انہیں اس وقت ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے سکول یونیفارم میں تھیں۔
© The Independent