انضمام کے بعد قبائلی اضلاع کے تعلیمی اداروں میں سہولیات کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے ایک نیا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے جس کے مطابق ہر ضلع کے سکولوں میں فنڈز اساتذہ کی صوابدید پر خرچ کیے جائیں گے۔
اس طریقہ کار کے لیے ہر ضلع میں ایک کونسل ہوگی جس کو پی ٹی سی یعنی والدین اساتذہ کونسل کا نام دیا گیا ہے۔
دیگر کمیونٹیز کے نمائندے بھی اس کونسل کا حصہ ہوں گے جو مل جل کر رقم کی ضرورت اور مطلوبہ سہولیات کا تعین کریں گے۔
اس مقصد کی خاطر پیر کے روز پشاور میں تمام قبائلی اضلاع سے 67 مرد و خواتین اساتذہ کو ایک چار روزہ تربیتی ورکشاپ کے لیے مدعو کیا گیا تاکہ ان کو فنڈز استعمال کرنے کا طریقہ بتایا جائے اور دیگر نکات پر روشنی ڈالی جا سکے۔
ورکشاپ میں قبائلی علاقوں سے بعض مشران اور نوجوان بھی آئے تاکہ ورکشاپ میں موجود حکومتی نمائندوں کو نہ صرف اپنے سکولوں کے حالات سے باخبر کر سکیں بلکہ اس نئے طریقہ کار سے متعلق سوالات بھی پوچھ سکیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیلات بتاتے ہوئے ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے سیکرٹری ندیم اسلم چوہدری نے بتایا کہ تقریباً تین ارب سے زائد روپے ضم شدہ اضلاع کے اساتذہ کو دیے جا چکے ہیں جب کہ مزید رقم کی منتقلی اس سال کر دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ کم وبیش چار ارب روپے اساتذہ کو دیے جارہے ہیں۔ اساتذہ خود بیٹھ کر اپنے تعلیمی اداروں کے لیے درکار سہولیات کا جائزہ لیں گے اور جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی اس کے لیے فنڈ کااجرا کریں گے۔
سیکرٹری ندیم چوہدری نے مزید بتایا کہ اساتذہ کے پاس سکول میں تعمیر سے لے کر مرمت تک کا اختیار ہوگا نیز فرنیچر خریدنا اس فنڈ میں شامل نہیں ہے، البتہ اس کی مرمت وہ کروا سکیں گے۔ بنیادی طور پر یہ رقم مسنگ سہولیات کے لیے دی جارہی ہے۔ جن اساتذہ کو تربیت دی جارہی ہے ، یہ آگے جاکر اپنے علاقوں میں مزید اساتذہ کو ٹریننگ دیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقع پر موجود وزیر ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن شاہرام خان ترکئی سے جب یہ پوچھا گیا کہ سابقہ فاٹا میں تعلیم کی مد میں دیے جانے والے فنڈز کو اداروں اور بااثر افراد کے ذریعے خرچ کرنے پر خرد برد کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے، اب یہ بتایا جائے کہ پی ٹی سی کے اس نئے نظام کی ٹرانسپیرنسی کیسے ممکن بنائی جائے گی؟ تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مانیٹرنگ کے مختلف لیول ہیں۔ ایک مانیٹرنگ ادارہ ای ایم اے ہے، لوکل لیول پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اور ان کی پوری ٹیم اس کو مانیٹر کرے گی۔اس کے علاوہ ڈپٹی کمشنر بھی اس پر نظر رکھیں گے۔ پیرنٹ ٹیچر کونسل کا تصور ہی یہی ہے کہ وہ خود پلان کریں اور خود ہی مانیٹر بھی کریں۔ جن کے اپنے بچے سکول میں پڑھ رہے ہوتے ہیں وہ زیادہ دل سے اس مقصد میں شامل ہوتے ہیں۔
ورکشاپ میں شامل مختلف خواتین اساتذہ نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اساتذہ کو زیادہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک سکول میں کن سہولیات کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔
شمالی وزیرستان میں میرانشاہ گرلز ہائی سکول کی ٹیچر ثمینہ جان نے بتایا کہ پہلے جن لوگوں کے ہاتھ میں فنڈز کی باگ ڈور تھی اس کی وجہ سے بہت سے کام ادھورے پڑے ہوتے تھے۔
انہوں نے ارادہ ظاہر کیا کہ اب اساتذہ کم پیسوں پر معیاری کام کریں گے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اساتذہ کی توجہ ٹیچنگ سے ہٹ جائے گی، دراصل سہولیات کی لسٹ اساتذہ بنائیں گے اور فنڈز اساتذہ کے دستخط پر نکالے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ٹیچرز کچھ غلط بھی نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں افسران بالا کی جانب سے خوف رہے گا۔