امرتسر میں واقع جلیانوالہ باغ کی شکل اب پہنچانی نہیں جاتی، لیکن آج سے ٹھیک سو سال پہلے 13 اپریل 1919 کو یہاں برطانیہ کے ہندوستان پر قبضے کی تاریخ کا سب سے خونریز واقعہ پیش آیا تھا، جب برطانوی فوج نے یہاں سینکڑوں نہتے مردوں، عورتوں اور بچوں کو بھون کر رکھ دیا تھا۔
اس واقعے کے بارے میں بہت سی متضاد خبریں موجود ہیں لیکن ہندوستانی اس واقعے کی بربریت سو سال گزرنے کے بعد بھی نہیں بھول سکے اور یہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی تحریک کا اہم سنگِ میل بن گیا۔
حالیہ مہینوں میں برطانوی حکومت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ اس واقعے کی صد سالہ برسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر معافی مانگ لے۔ شاید اسی سے اُس دن مرنے والوں کے لواحقین کے بچوں کی کچھ تسلی ہوجائے، جن کا کہنا ہے کہ وہ سو سال بعد بھی اس واقعے کے اثرات محسوس کر رہے ہیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ اس دن کتنے لوگ موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ سرکاری تعداد 379 بتائی جاتی ہے، لیکن امرتسر میں قائم کردہ ’بٹوارہ میوزیم‘ نے 501 لوگوں کے ناموں کی فہرست تیار کی ہے جو اس دن گولیوں کا نشانہ بنے۔ یہ تو وہ ہیں جن کے نام معلوم ہوسکے، اس کے علاوہ وہ تعداد الگ ہے جن کے ناموں کا سراغ شاید کبھی نہ لگ سکے۔اس دن جلیانوالہ باغ میں دس سے بیس ہزار کے قریب لوگ جمع تھے۔ یہ کچھ سیاسی رہنماؤں کی اپیل پر یہاں آئے تھے جو برطانوی افسروں کی جانب سے حالیہ پکڑ دھکڑ پر احتجاج کرنا چاہتے تھے۔
واقعے سے تین دن قبل شہر میں بلوہ پھوٹ پڑا تھا جس میں پانچ یورپی مارے گئے تھے۔ صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے شہر کا کنٹرول جنرل ریجینالڈ ڈائر کے حوالے کر دیا گیا جنہوں نے عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی تھی۔
سنیل کپور کے پڑدادا جلیانوالہ میں گولی کا نشانہ بن گئے تھے (Adam Withnall/The Independent)
جب جلیانوالہ باغ میں مظاہرے کا منصوبہ طے پایا تو منتظمین کو معلوم تھا کہ اس دوران گڑبڑ ہو سکتی ہے، اس لیے ان میں سے کچھ نے اپنی بیویوں سے کہا تھا کہ وہ گھروں پر ہی رہیں۔
ڈاکٹر کم ویگنر لندن کی کوئین میری یونیورسٹی میں برطانوی تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے امرتسر کے سانحے کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’باغ کے اندر بچے کھیل رہے تھے۔ ایک طرف وہ زائرین تھے جو گولڈن ٹیمپل کے بالکل قریب والی جگہ پر موجود تھے۔‘
اسی دوران جنرل ڈائر اور ان کے بندوقوں سے مسلح سپاہی باغ میں داخل ہوئے۔ بعد میں کی جانے والی تحقیقات کے دوران جنرل ڈائر نے کہا کہ وہ مشین گنیں ساتھ لانا چاہتے تھے لیکن وہ باغ کے تنگ دروازوں سے اندر داخل نہیں ہو سکتی تھیں۔
فوج کے باغ میں پہنچنے کے صرف 30 سیکنڈ کے اندر اندر باغ میں گولیاں چلنا شروع ہو گئیں۔ یہ سلسلہ مسلسل 10 منٹ تک جاری رہا جس کے دوران 1650 گولیاں داغی گئیں۔ مرنے والوں کے علاوہ ڈیڑھ ہزار سے زیادہ لوگ زخمی بھی ہوئے۔
42 سالہ سنیل کپور کہتے ہیں کہ اس واقعے نے ان کے خاندان کو ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ دیا۔ امرتسر میں اپنے گھر میں انہوں نے مجھے اپنے پڑدادا لالہ وسو مال کی تصویر دکھائی جو جلیانوالہ باغ کے اجتماع کے منتظمین میں سے ایک تھے اور جو قتلِ عام کا شکار ہوئے۔
سنیل کپور کے پڑدادا کی عمر اس وقت 45 سال تھی اور وہ ایک کامیاب تاجر تھے۔ وہ سیاسی طور پر سرگرم تھے اور انہوں نے اس مقصد کے لیے 12 سو روپے کا چندہ بھی اکٹھا کر لیا تھا جو اس وقت ایک بڑی رقم سمجھی جاتی تھی۔
سنیل کہتے ہیں کہ جب سات بجے تک وسومال گھر نہیں لوٹے تو ان کی چھ ماہ کی حاملہ بیوی پورم انہیں ڈھونڈنے نکلیں۔ ’اس وقت ان کی عمر صرف 21 سال تھی۔ وہ جائے وقوعہ پر پہنچیں اور ہر طرف خون بکھرا دیکھا۔ ہر کوئی چیخ رہا تھا۔ انہیں اپنے خاوند کو ڈھونڈنے میں ایک گھنٹہ لگا۔‘
قتلِ عام کے بعد امرتسر میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا (Alamy)
وسومال بری طرح زخمی تھے۔ ان کے سینے میں دو گولیاں لگی تھیں۔ پورم رات بھر ان کے سرہانے بیٹھی رہیں۔ پھر کہیں جا کر صبح کے وقت روٹری کلب کے رضاکاروں نے انہیں ہسپتال پہنچایا، لیکن وہاں نہ ڈاکٹر تھے نہ ہی آپریشن کا کوئی بندوبست۔ چھ دن بعد وسومال چل بسے۔ پورم اپنے خاوند کا کاروبار سنبھال نہیں سکتی تھیں، اس لیے اسے بند کرنا پڑا اور انہیں اپنے بچے (سنیل کپور کے دادا) کی پرورش کے لیے پہلے سے پس انداز کیے ہوئے پیسوں میں سے خرچ کرنا پڑا۔
انہوں نے بتایا: ’اس قتلِ عام نے پورم کو بدل کر رکھ دیا۔ انہیں اپنے بچے کی خاطر لوہے کی طرح مضبوط بننا پڑا۔ انہوں نے میرے پڑدادا کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے برطانوی راج کے خاتمے کی جدوجہد میں حصہ لینا شروع کر دیا۔‘
بعد میں جب انگریزوں نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ہنٹر کمیشن قائم کیا تو پورم نے اس میں شہادت دی۔ اس کمیشن نے قتلِ عام کے بعض پہلو پر تنقید تو کی لیکن اسے بڑی حد تک لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش قرار دیا گیا۔ سنیل کہتے ہیں کہ پورم نے لاہور میں تحقیقات کے دوران ڈائر سے کہا کہ ’اسے اپنے گناہوں کا حساب بھرنا پڑے گا۔‘ یہ الگ بات کہ ڈائر صرف انگریزی جانتے تھے اس لیے انہیں ان بات کی سمجھ نہیں آ سکی ہوگی۔
جب سابق برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے 2013 میں جلیانوالہ باغ کا دورہ کر کے ’شدید پشیمانی‘ کا اظہار کیا تھا تو سنیل نے ان سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کیمرون ’کھل کر معافی تو نہیں مانگ سکتے تھے لیکن ان کی حرکات و سکنات سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اس واقعے کو اپنی روح کے اندر محسوس کر رہے ہیں۔‘
سنیل جلیانوالہ باغ قتلِ عام میں مارے جانے والوں کے خاندانوں کے لیے ایک چھوٹی سی فاؤنڈیشن چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ برطانیہ مکمل معافی مانگے۔ لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ان خاندانوں کو معاوضے کی بجائے برطانوی پارلیمان میں بلایا جائے تاکہ وہ اپنے بزرگوں کی کہانیاں سنا سکیں۔
ان کا کہنا تھا: ’اگر برطانیہ معافی مانگ لے اور ان خاندانوں کو بلا لے جو سو سال سے یہ دکھ برداشت کر رہے ہیں، تو یہ اچھے تعلقات کی ابتدا ہوگی۔‘
جسوندر سنگھ جلیانوالہ باغ میں قتلِ عام کی یادگار پر نو سال سے سیاحوں کی رہنمائی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے برطانوی فوجیوں نے ہجوم پر گولیاں برسانا شروع کی تھیں۔
جلیانوالہ باغ قتلِ عام کے بعد (Alamy)
وہ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ جو یہاں آتے ہیں، انہیں حیرت ہے کہ برطانیہ نے اب تک معافی نہیں مانگی۔ ’میرے پاس بہت سے یورپی اور برطانوی سیاح آتے ہیں۔ جب میں برطانوی سیاحوں کو یہاں لاتا ہوں تو وہ افسوس کرتے ہیں اور بعض تو رونا شروع کر دیتے ہیں۔‘
برطانیہ کے سرکاری موقف کا اعادہ گذشتہ برس دارالامرا میں کیا گیا تھا اور اس ہفتے وزارتِ خارجہ نے بھی اسے دہرایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس وقت کی برطانوی حکومت نے اس قتلِ عام کی مذمت کی تھی اور یہ معاملہ ختم ہو گیا تھا۔ لیکن جسوندر سنگھ کہتے ہیں: ’سیاحوں کا خیال ہوتا ہے کہ معافی کب کی مانگی جا چکی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر صرف معافی سے کسی کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے تو پھر اسے کرنے میں کیا حرج ہے؟‘ وہ کہتے ہیں کہ معافی ’پورے ملک کے لیے بڑی چیز ہوگی۔‘
جسویندر سنگھ جلیانوالہ باغ میں ٹورسٹ گائیڈ کا کام کرتے ہیں (Adam Withnall/The Independent)
پارک میں ایک مینار تعمیر کیا گیا ہے جس کے قریب ایک کنواں ہے۔ روایت کے مطابق اس میں سے 120 لاشیں نکالی گئی تھیں۔ اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے لیکن کنویں کے قریب چار زبانوں میں یہی روایت درج ہے۔
تاہم ایک بات جس کی صحت میں کوئی شک نہیں وہ اینٹوں کی وہ دیواریں ہیں جو اب بھی برطانوی گولیوں کے نشانوں سے اٹی ہوئی ہیں۔
ویگنر کہتے ہیں: ’دارالامرا میں ہونے والی بحث کے دوران ارکان بار بار اس دور کے وزیرِ جنگ ونسٹن چرچل کی اُس تقریر کا حوالہ دیتے تھے جس میں انہوں نے اس قتلِ عام کو ایک ’بہیمانہ واقعہ‘ قرار تو دیا لیکن اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
انہوں نے کہا: ’اگر آپ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ جو کچھ جنرل ڈائر نے کیا وہ صرف ایک تنہا واقعہ نہیں تھا بلکہ ہندوستان پر برطانوی راج کے دوران ان گنت دوسرے انگریز افسروں نے بھی اس قسم کی ذہنیت کا مظاہرہ کیا تھا تو اس سے برطانوی اقتدار کی جڑیں ہل کر رہ جاتی ہیں۔‘
اس واقعے کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ قریب ہی واقع بٹوارہ میوزیم میں اس کی ٹائم لائن بتائی گئی ہے اور یہ کہ اس کے بعد کیسے وہاں مارشل لا لگا دیا گیا۔
مارشل لا کے احکامات خود جنرل ڈائر نے جاری کیے، جن کے تحت سائیکل سواری پر پابندی لگا دی گئی اور چار سے زیادہ لوگوں کا اجتماع غیر قانونی قرار پایا۔ خلاف ورزی کرنے والوں کر کپڑے اتار کر انہیں سرِ عام کوڑے لگائے جاتے تھے۔
اس موقعے کی مناسبت سے ایک نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جس میں اس دور کے اخباروں کے تراشے پیش کیے گئے ہیں۔
یہ نمائش جلیانوالہ باغ قتلِ عام کو ایک اکیلا واقعہ نہیں بلکہ نوآبادیاتی جبر کے سلسلے کی ایک کڑی قرار دیتی ہے۔
کشور دیسائی اس نمائش کی نگران ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ معافی مانگنے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں۔ ’میں سمجھتی ہوں کہ معافی اہم ہے۔ ہمارے لیے نہیں، بلکہ ان کے لیے جو مارے گئے۔‘