بازوں کے بغیر پیدا ہونے والے محمد اکرام نے سنوکر کی ٹیبل پر پوزیشن لی اور پھر اپنی ٹھوڑی کے جھٹکے سے کیو بال کو ہٹ کیا جس سے سرخ بال کارنر پاکٹ میں چلی گئی۔
یہ 32 سالہ اکرام کا غیر معمولی جذبہ ہی تھا جنہوں نے محرومی کے باوجود اس کھیل کا انتخاب کیا جو صرف ہاتھوں سے ہی کھیلا جا سکتا ہے لیکن پاکستانی کھلاڑی نے اپنی صلاحیتوں کا احترام کرتے ہوئے کئی سال گزارے ہیں اور اب وہ اپنے مقامی سنوکر ہال میں کسی کو بھی ہرا سکتے ہیں۔
پنجاب کے چھوٹے سے شہر سمندری میں سنوکر ہال میں موجود اکرام نے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ ایک مشکل کام ہے جس کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ اگر کہیں مجھ جیسے کھلاڑی موجود ہیں تو میں ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘
ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے اکرام اور اس کے آٹھ بہن بھائی کبھی سکول نہیں گئے اور انہوں نے اپنے بچپن کا بیشتر حصہ الگ تھلگ گزارا۔
نوعمری سے ہی انہوں نے مقامی سنوکر ہال میں کھلاڑیوں کو دیکھنا شروع کیا تھا اور خفیہ طور پر اس کھیل کی مشق شروع کر دی تھی۔
اکرام نے کہا: ’شروع شروع میں، میں بالز کو براہ راست پولز میں ڈالنے کی کوشش کرتا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ میں نے اپنے کھیل کو بہتر بنایا اور دوسرے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنا شروع کیا۔‘
اکرام اب شہر کے بہترین کھلاڑیوں کو چیلنج کرسکتے ہیں۔
اکرام کے والدین ابتدائی طور پر انہیں کئی سالوں تک سنوکر کھیلنے سے روکتے رہے لیکن یہ ان کا جذبہ ہی تھا جس کی بدولت وہ انہیں منانے میں کامیاب ہو گئے اور گذشتہ سال سے باقاعدگی سے سنوکر کھیل رہے ہیں۔
ان کی مہارت نے انہیں جلد ہی پاکستان سنوکر کی ایک مشہور شخصیت بنا دیا۔
اکرام نے کہا: ’میں مشہور ہو گیا ہوں۔‘ اگرچہ انہیں سوشل میڈیا کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔
کرکٹ اب بھی پاکستان کا سب سے مشہور کھیل ہے لیکن سنوکر نے بھی ملک میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔