فکڑ بابا بھارت کے عام انتخابات میں اپنی 17ویں یقینی ہار پر خوش ہیں۔ بابا کا شمار الیکشن کے اُن امیدواروں میں ہوتا ہے جو ہر بار شکست کا منہ دیکھتے ہیں۔
تاہم بابا پے در پے شکستوں پر دل برداشتہ نہیں کیونکہ ان کے گُرو نے پیش گوئی کی ہے کہ وہ اپنی بیسویں کوشش میں الیکشن ضرور جیت لیں گے۔
ہندو مبلغ بابا نے شمالی بھارت کے مقدس شہر ماتھورا میں اے ایف پی سے گفتگو میں کہا ’یہ بالکل سیڑھیاں چڑھنے جیسا ہے۔ میں کامیابی سے محض تین قدم دور 17ویں سیڑھی پر ہوں‘۔
بھارتی قانون کے مطابق ہر وہ شخص جس کی عمر 25 سال سے زائد ہو اور وہ مجرم نہ ہو، الیکشن لڑنے کا اہل ہے۔
رواں سال بھارتی تاریخ کے سب سے بڑے انتخابات میں محض 543 سیٹوں پر ہزاروں امیدوار مدمقابل ہیں۔
2014 میں ہونے والے انتخابات میں تقریبا 90 فیصد امیدوار اتنی بری طرح ہارے کہ ان کی ضمانتیں تک ضبط ہو گئیں۔ اس سب کے باوجود ہر الیکشن میں پچھلی مرتبہ سے زائد امیدوار اپنی قسمتیں آزماتے ہیں۔
بابا نے پہلا الیکشن 1976 میں اپنے روحانی پیشوا کے بے حد اصرار پر لڑا تھا۔
روحانی پیشوا کی پیش گوئی کے عین مطابق بابا پہلے الیکشن میں تو ناکام رہے لیکن ان کی سیاست میں دلچسپی ضرور پیدا ہو گئی۔
اگلی چار دہائیوں میں بابا نے ریاستی اور قومی سطح پر مزید 15 الیکشن لڑے لیکن ان کی قسمت نہ بدلی۔
پے در پے شکستوں کے باوجود بابا کا حوصلہ بلند ہے کیونکہ اُن کے نذدیک وہ ہر ہار کے ساتھ فتح کے قریب ہو رہے ہیں۔
الیکشن کا بادشاہ
دوسری جانب، جنوبی بھارت کے کے۔ پدماراجن بھی اپنی ایک اور شکست کی بھرپور تیاریاں کر رہے ہیں۔
تامل ناڈو کے 60 سالہ پدماراجن پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں مگر وہ اب تک 201 الیکشنوں میں شکست کا منہ دیکھ چکے ہیں۔
آخری مرتبہ انہوں نے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف الیکشن لڑتے ہوئے محض 6200 ووٹ حاصل کیے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اِس مرتبہ وہ وزیر اعظم کے عہدے کے سنجیدہ امیدوار اور کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی کو ’ٹکر‘ دینے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
خود کو ’الیکشن کا بادشاہ‘ کہلانے والے پدماراجن نے اے ایف پی کو بتایا ’بھارتی جمہوریت اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہ ایک عام آدمی کو بھی بڑے سیاست دانوں سے الیکشن لڑنے کا موقع دیتی ہے‘۔
تاہم، یہ شکستیں امیدوار کو مفت نہیں پڑتیں کیونکہ ہر امیدوار کو تقریبا 30لاکھ روپے الیکشن فیس بھرنا ہوتی ہے۔
’مُردوں‘ کا الیکشن
سنتوش سنگھ بھی اس بار اپنی قسمت آزما رہے ہیں لیکن ان کی وجوہات کچھ مختلف ہیں۔
بھارتی حکومت کی دستاویزات میں سنگھ فوت ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے رشتہ داروں نے انہیں زمین میں حصہ نہ دینے کے لیے 2003 میں ان کا جھوٹا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوایا تھا۔
یہ سننے میں عجیب لگتا ہے لیکن بھارت میں ایسے واقعات عام ہیں۔
نئی دہلی میں چائے کے ڈھابے پر کام کرنے والے سنگھ نے اے ایف پی سے گفتگو میں بتایا ’ میں ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ میں زندہ ہوں۔ میری لڑائی محض سسٹم سے نہیں بلکہ اسے چلانے والوں سے بھی ہے‘۔
شکستوں کے ریکارڈ
بھارت کی تاریخ ایسے ناکام امیدواروں سے بھری پڑی ہے اور اس کا آغاز 1951 میں پہلے قومی انتخابات سے ہوتا ہے۔
جنوبی کرناٹکا کے رنگا سوامی 2004 سے 1967 کے درمیان 86 الیکشن ہار کر گنیز ورلڈ ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
اس خراب ریکارڈ میں رنگا سوامی کا مقابلہ ایک اور قسمت کے مارے کاکا جوگندر سنگھ سے ہے جو 30 سالوں میں 300 بار مختلف الیکشن لڑے اور سب ہی ہارے۔
ٹیکسٹائل مل کے مالک جوگندر سنگھ کی الیکشنوں میں سب سے نمایاں کارکردگی 1992 کے صدارتی الیکشن میں چوتھے نمبر پر آنا تھا۔
تاہم، یہ سب فوت ہو چکےہیں لیکن ان کی میراث آج کل فکڑ بابا کی صورت میں زندہ ہے، جو پر امید ہیں کہ اس جنم میں نہیں تو اگلے جنم میں وہ پارلیمنٹ تک ضرور پہنچیں گے۔
’میرے گرو نے میری فتح کی پیش گوئی کر رکھی ہے لہذا میں ہر صورت پارلیمنٹ پہنچوں گا چاہے میں ہسپتال کے بستر پر ہی کیوں نہ پڑا ہوں۔‘