'احساس ہوا کہ زندگی کچھ بھی نہیں۔ ابھی ہے تو ابھی نہیں، مگر میری ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں، اس لیے ہمت کی اور کینسر سے مرنے کے خوف سے نکل کر سوچنا شروع کیا کہ اب اس بیماری سے لڑنا تو ہے، جو ہوگا دیکھا جائے گا۔'
یہ کہنا تھا کہ نجمہ فردوس کا۔ ان کی سہیلی عاصمہ نعمان بھی اسی مرض کا شکار ہوئیں۔ عاصمہ کہتی ہیں ’میرے بچے چھوٹے تھے، کینسرتو ہوچکا تھا اب بچوں کے سامنے ہمت ہار جاتی تو وہ گھبرا جاتے۔ اس لیے گھر والوں کے سامنے خود کو مضبوط ظاہر کیا، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں مگر نجمہ میری زندگی میں وہ انسان تھیں جن کے سامنے میں ٹوٹ کر بکھر جاتی تھی اور اپنا خوف، دکھ تکلیف سب بتاتی تھی۔‘
یہ کہانی ہے دو ایسی سہیلیوں کی، جو یکے بعد دیگرے کینسر کا شکار ہونے کے بعد صحت یاب ہوئیں۔ دونوں سہیلیوں کا کہنا ہے کہ اس بیماری میں انہوں نے ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا۔
نجمہ اور عاصمہ سکول ٹیچرز تھیں۔ 2003 میں عاصمہ کو معلوم ہوا کہ ان کے بازو میں کینسر ہے۔ 'میرا کینسر تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کینسر ہڈی کے نزدیک پہنچ چکا ہے اور آپریشن کے دوران معلوم ہوگا کہ کہیں میرا بازو تو نہیں کاٹنا پڑے گا۔
’میرے تینوں بچے اس وقت بہت چھوٹے تھے۔ اس لیے میں زیادہ خوف زدہ بھی ہوئی کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو ان بچوں کا کیا بنے گا۔ مگر ساتھ ہی بچے اتنے چھوٹے تھے کہ انہیں سمجھایا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ میں کس بیماری کا شکار ہوں۔
عاصمہ مزید بتاتی ہیں ’میں ان کے سامنے رو بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ ڈر جاتے اس لیے گھر میں میں نے بالکل نارمل رہنا شروع کیا۔ مگر کئی بار ایسے لمحے آئے جب میں بالکل ٹوٹ گئی اپنا کتھارسز کرنے کے لیے میرے پاس نجمہ تھیں۔ میں انہیں فون کر کے اپنے بارے میں سب بتاتی اور اکثر ان سے بات کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتی۔
’نجمہ بھی مجھے فون پر تسلی دیتیں، انہیں کچھ ٹوٹکا یا کچھ بھی معلوم ہوتا وہ مجھے بتاتیں، میرے لیے دعا کرتیں اور مجھے گھنٹوں سنتیں۔ میرا آپریشن ہو گیا اور خدا کا شکر ہے کہ میں صحت یاب ہوئی۔'
عاصمہ صحت یاب ہو گئیں مگر انہوں نے سکول کی نوکری دوبارہ شروع نہیں کی مگر ان کی دوست نجمہ اسی سکول میں پڑھا رہیں تھیں اور زندگی نارمل چل رہی تھی۔
نجمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: '2008 میں میری چھاتی میں درد ہوا۔ میں نے عاصمہ سے ذکر کیا انہوں نے مجھے فوری ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیا، میں ڈاکٹر کے پاس گئی مگر ایساکچھ نہیں تھا، اس کے باوجود ڈاکٹر نے مجھے سالانہ اپنا چیک اپ کرواتے رہنے کا مشورہ دیا جو میں کرواتی رہی۔
’2017 میں ہمارے سکول میں پنک ربن کے نام سے ایک ٹیم آئی خواتین اساتذہ کی میمو گرافی کے لیے۔ میں نے بھی کروالی۔ اس میمو گرافی کا نتیجہ ٹھیک نہیں آیا، مجھے بتایا گیا کہ میں فوری کسی اچھے ڈاکٹر سے رابطہ کروں۔ بس اس کے بعد چل سو چل۔ مجھے چھاتی کا کینسر تھا اور یہ ایک حقیقت تھی جسے قبول کرنے میں میرے گھر والوں کے علاوہ عاصمہ نے میرا ساتھ دیا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نجمہ نے بتایا کہ جب انہیں اپنی بیماری کا معلوم ہوا تو ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ 'میں تو باقاعدہ گر گئی۔ مگر پھر خود کومضبوط کیا اور اس میں عاصمہ نے مجھے بھرپور سہارا دیا۔
’میں نے عاصمہ سے بات کی، وہ میرے ساتھ ہسپتال بھی جاتی رہیں، مختلف اچھے ڈاکٹروں کا بتایا اس کے علاوہ وہ انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کر کے مجھے بہت کچھ بتاتیں۔ میرا آپریشن ہوا اور میری ایک چھاتی کاٹ دی گئی۔
’اس بات کو قبول کرنا بھی میرے لیے مشکل تھا اور اس میں بھی عاصمہ نے مجھے ہر ممکن طریقے سے سمجھایا اور ایک معمول کی زندگی کی طرف واپس لائیں۔ اچھی بات یہ تھی کہ مجھے ڈاکٹر نے آپریشن کے بعد کیمو تھراپی کا نہیں کہا، اس لیے میں آپریشن کے 15 دن کے بعد واپس سکول میں تھی۔'
دونوں سہیلیوں کا کہنا ہے کہ ان کے مشاہدے کے مطابق خواتین اپنی کینسر جیسی موزی بیماری کو لےکر گھبراتی بھی ہیں اور شرماتی بھی۔ اسی لیے اکثر ان کی بیماری اس وقت سامنے آتی ہے جب وہ بہت زیادہ پھیل چکی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بیماری سے گھبرانے کی بجائے فوری اس کا علاج شروع کروانا چاہیے کیونکہ اس میں انسان کی زندگی بچ سکتی ہے اور اس کی زندہ مثال ہم دونوں سہیلیاں ہیں۔
عاصمہ اور نجمہ کا کہنا ہے کہ کینسر کا خوف بہت زیادہ ہے ایسے میں جہاں گھر والوں کا پیار محبت، ہمدردی اور توجہ ضروری ہوتی ہے، وہیں آپ کے پاس ایسے دوست بھی ہونے چاہییں جو آپ کوسنیں اور آپ کو ایسے موقعوں پر دوبارہ اٹھا کر کھڑا کریں جب آپ کو لگے کہ سب ختم ہو گیا ہے۔