پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی لیپہ جیسے دور دراز اور پسماندہ علاقے کی طالبہ انعم مقبول نے میٹرک کے امتحانات میں 99 فیصد نمبر حاصل کر کے مظفرآباد ڈویژن میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔
وادی لیپہ سیز فائر لائن پر واقع ایک خوبصورت وادی ہے جو شدید برف باری کی وجہ سے سال میں چار ماہ بند رہتی ہے۔ یہاں آئے دن بھارتی سرحد کے پار سے شیلنگ میں رہائشیوں کے گھر تباہ ہونا یا جان سے جان معمول بن گیا ہے۔
ان مشکل حالات میں انعم نے پڑھائی کی لگن جاری رکھی اور میٹرک کے امتحانات میں نے 1100 میں سے 1089 نمبر حاصل کر کے مظفرآباد ڈویژن میں ٹاپ کیا۔
انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انعم مقبول نے بتایا: 'ہماری حالت زار کو اگر دنیا دیکھے تو انہیں پتہ چلے گا کہ کیسے گولیوں کی گھن گرج میں ہمارے گھر جل رہے ہوتے ہیں ہمارے لوگ زخمی ہو رہے ہوتے ہیں۔ اور ان حالات میں بھی ہم پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم یہاں رہتے ہوئے اتنی اچھی پوزیشن لیتے ہیں اگر ہمیں پر امن ماحول مہیا ہو تو ہم اور اچھا ریزلٹ دے سکتے ہیں۔'
انعم مقبول کا کہنا تھا کہ ہر مشکل کو عبور کرنے کے لیے انسان کو ہمت سے کام لینا پڑتا ہے۔ 'مجھے بھی زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں ہمیشہ ٹاپ کرتی رہی ہوں۔ کبھی آگے، کبھی پیچھے اور کبھی بہت پیچھے، لیکن پھر بھی میں نے ہمت نہیں ہاری۔'
انہوں نے مزید کہا: 'ہمارا علاقہ انتہائی پسماندہ ہے، ایک دور افتادہ علاقہ جہاں بہت مشکلات ہیں۔ یہاں پر شدید فائرنگ ہوتی ہے، فائرنگ میں بھی میں نے اپنی تعلیم کو برقرار رکھا۔ مجھے اپنی بیشتر پڑھائی بنکر کے اندر کرنی پڑتی تھی۔'
وہ کہتی ہیں کہ ان کے گاؤں میں صحت کی سہولیات نہیں۔ 'میں چاہتی تھی کہ اپنے گاؤں میں تمام سہولیات لاؤں تاکہ میرا گاؤں بھی دنیا کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں شامل ہو سکے۔ مجھے پڑھنے کا شوق تھا کہ میں ڈاکٹر بن کر اپنی مٹی کا قرض اتاروں۔'
انعم مقبول نے بتایا کہ بعض اوقات گھر سے سکول کے لیے نکلتے ہی فائرنگ شروع ہو جاتی تھی۔ کبھی راستے میں اور کبھی تو سکول میں فائرنگ ہوتی تھی جس سے تعلیم متاثر ہوتی پھر وہ بنکر میں بیٹھ کر پڑھتی تھیں۔
'جب فائرنگ کی وجہ سے چھٹیاں ہوتی تھیں تو گھر بیٹھ کر پڑھتی رہتی تھی۔ پچھلا پڑھا ہو سبق دہرا لیتی تھی یا کسی استاد سے کال کر کے پوچھ لیتی تھی۔'
اپنے علاقے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: 'اگر ہماری اس ریاست کشمیر کو دیکھا جائے تو ہم انسانوں کو جانوروں کے جتنے حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ عالمی برادری خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہے لیکن یہاں ہمارے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ میں عالمی برادری سے مطالبہ کرتی ہوں کہ ہمارے علاقے اور ہماری ریاست میں امن قائم کریں۔ ہمیں وہ تمام حقوق دیں جن کے ہم حقدار ہیں۔'
ان کی شکایت تھی کہ مظفرآباد ڈویژن میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود حکومت کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا: 'مجھے لگتا ہے کہ میرا یہ خواب ادھورا رہ جائے گا۔ ہمارا کالج صرف ایف ایس سی تک ہے اس سے آگے یہاں کلاسز نہیں ہوتی۔ میرا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے اگر حکومت نے مدد نہ کی تو میں اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکوں گی۔'