'مجھے خوف تھا کیونکہ جب میں نویں دسویں میں بھی تھا تو کچھ اساتذہ کا سلوک میرے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ مگر جتنی کامیابی ملی میں وہ سب بھول گیا کہ کیسے میرے مسیحی ہونے کی وجہ سے میرے کچھ استادوں نے کس طرح میرا دل بہت خراب کیا اور میرا حوصلہ پست کیا مگر اب میری کامیابی کے بعد وہی استاد مجھے مبارکباد دے رہے ہیں۔'
یہ کہانی ہے شیخوپورہ کے 18 سالہ روہان اشفاق کی جنہوں نے میٹرک کے حالیہ امتحانات میں اپنے سکول میں 1100 نمبروں میں سے 1033 نمبر لے کر اول پوزیشن حاصل کی ہے۔ انڈپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے روہان کا کہنا تھا: 'میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے جہاں پڑھائی لکھائی اور دیگر ضروریات کے لیے والدین کے وسائل کم پڑ جاتے ہیں۔ میرے والد سبزی بیچتے تھے، ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔ گھر کا گزارا مشکل تھا اسی لیے ساتویں کے بعد میں دو سال تک سکول نہیں گیا اور والد کے ساتھ سبزی بیچی۔'
روہان نے بتایا کہ اس دوران ان کے ایک بھائی سکول میں پڑھ سکتے تھے سو وہ پڑھتے رہے مگر روہان کو والد کا ہاتھ بٹانا پڑا۔ 'میں نے اس کے علاوہ کچھ ریستورانز میں ویٹر کا کام بھی کیا، کچھ شادی ہالز میں بھی تاکہ گھر کا چولہا جل سکے۔ کرسمس پر بھی جو چھٹیاں ہوتی تھیں میں ان میں بھی کام کرتا تھا تاکہ کرسمس پر ہمارے گھر میں کچھ خوشیاں منائی جاسکیں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پڑھائی میں دو سال کے وقفتے کے بعد روہان نے اپنے علاقے کے ایک پبلک سکول میں پھر داخلہ لیا۔ نویں میں بھی اول آئے اور اس کے بعد دسویں کے امتحانات میں بھی نمایاں نمبر لے کر پوزیشن حاصل کی۔
وہ بتاتے ہیں: 'میرے خیال میں وہ بچے جن کے وسائل زیادہ ہیں اور وہ بڑے سکولوں میں پڑھتے ہیں ان کے لیے تعلیم حاصل کرنا بہت آسان ہے بنسبت ہم جیسے غریب لوگوں کے۔ مگر میرا ماننا یہ ہے کہ طالب علم چاہے جیسا مرضی ہو اگر اسے استاد اچھا مل گیا ہے تو وہ ضرور آگے نکلے گا لیکن اگر پڑھانے والا خود ہی اچھا نہ ہو تو بچے کا ٹیلنٹ کسی کام کا نہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ سوائے چند اساتذہ کے میری زندگی میں جتنے بھی استاد آئے انہوں نے میری مکمل مدد کی اور میری دل کھول کر حوصلہ افزائی کی۔ کچھ اساتذہ نے تو مشکل ترین حالات میں میری مالی مدد بھی کی جس کی وجہ سے میں اس قابل بن سکا کہ آج مجھے لاہور سمیت دیگر بڑے شہروں کے بڑے کالجوں سے داخلے اور مفت تعلیم کی پیش کش ہو رہی ہے۔'
روہان پری انجینئیرنگ میں داخلہ لینا چاہتے ہیں جبکہ ریاضی کے یہ ماہر ہیں تبھی میٹرک میں انہوں نے ریاضی میں سو فیصد نمبر حاصل کیے۔ اس کے علاوہ ان کا خیال ہے کہ وہ مقابلے کے امتحان دیں گے اور کسی ایسے عہدے پر جائیں گے جہاں وہ ملک و قوم اور اپنے جیسے ان بچوں کی مدد کریں گے جو وسائل کی کمی کے سبب اپنی تعلیم یا تو شروع نہیں کر پاتے یا بیچ میں چھوڑ دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا: 'میں اپنا ماضی کبھی نہیں بھولوں گا کہ میں نے کیا کیا مشکلات اٹھائیں اپنی کامیابی کے لیے۔ اور جب میں کسی ایسی پوزیشن پر ہوں گا تو میں اپنے جیسے بچوں کی مدد کروں گا تعلیمی میدان میں آگے آنے کے لیے۔ دوسرا میرا ماننا یہ ہے کہ ایسی کامیابیوں کے بعد لوگ مغرور ہو جاتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ مجھے غرور جیسی بیماری کبھی نہ لگے کیونکہ غرور میں آپ جتنا اوپر جاتے ہیں اس سے بھی زیادہ تیزی سے آپ نیچے آتے ہیں۔'
روہان شیخوپورہ میں ایک کمرے کے کچے مکان میں رہتے ہیں، پڑھائی کے لیے یہ اپنے دادا دادی کے گھر آجایا کرتے تھے۔ جو پکا بھی ہے اور اس کے کمرے بھی زیادہ ہیں۔ ان کی والدہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'میرے پانچوں بچوں میں سے روہان کی طبعیت سب سے الگ ہے۔ اس کے سوچنے کا انداز بھی سب سے مختلف ہے۔ یہ میرا صبر شکر کرنے والا بچہ ہے۔ امتحانات سے پہلے یہ ایک فیکٹری میں بھی کام کر رہا تھا مگر نتیجے کے بعد سے میں نے اس کی وہ نوکری چھڑوا دی ہے۔ مجھے نہیں اچھا لگتا کہ میرا بچہ اس طرح مزدوری کرے۔'
روہان کی والدہ نے بتایا کہ روہان کو جب کبھی کچھ پیسے ملتے تھے تو وہ انہیں جمع کرتے تھے اور ان سے کتابیں خرید کر لے آتے تھے۔
روہان کے خیال میں پاکستان بھر میں تعلیم کا نظام ایسا ہونا چاہیے جو مذہب، معاشی و معاشرتی حیثیت سے بالا تر ہو اور سب کے لیے مساوی ہو تاکہ کوئی بھی بچہ وسائل کی کمی یا مذہبی تفریق کے باعث زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے۔