انسانی حقوق کے کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ سعودی عرب میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کو بدلے اور سزا کے خوف سے سڑکوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
مشرق وسطی کے ممالک میں اسقاط حمل غیر قانونی ہے۔ اس کی اجازت صرف اس صورت میں دی جاتی ہے اگر خاتون کی جان کو خطرہ ہو، جبکہ بنا شادی کے جنسی تعلق کو جرم تصور کیا جاتا ہے۔
اگر ان ممالک میں کسی خاتون کے بارے میں یہ علم ہو جائے کہ وہ بنا شادی کے حاملہ ہیں تو انھیں جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔
نیویارک میں مقیم سعودی خاتون ڈینا المایوف کا کہنا ہے کہ ’بچوں کو سڑکوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سڑکیں محفوظ نہیں ہیں۔ اکثر سعودی عرب میں ذرائع ابلاغ پر اس قسم کی خبروں پر روشنی نہیں ڈالی جاتی۔‘
انھوں نے دعوی کیا کہ ’شادی سے پہلے جنسی تعلق کی وجہ سے بچوں کو سڑکوں پر ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘
’آپ کے خاندان والے چاہے کتنے بھی کشادہ سوچ کے مالک ہوں، آپ اس بچے کو نہیں رکھ سکتے اگر آپ شادی شدہ نہیں ہیں۔‘
’بعض اوقات اس لڑکی کو مار دیا جاتا ہے جس کا ریپ کیا گیا ہو۔ اگر آپ کے خاندان والے قدامت پسندانہ سوچ رکھتے ہیں تو وہ اپنے رشتہ داروں کو بھی مار دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب مرد جتنا اور جب چاہیں جنسی تعلق رکھ سکتے ہیں جب تک وہ اس بارے میں بات نہیں کرتے۔‘
ڈینا المایوف مزید بتاتی ہیں کہ ’اکثر خاندان والے اسی لڑکی کو قصوروار ٹھراتے ہیں جس کا ریپ ان کے بھائی یا والد نے کیا ہو۔ یہ اسی لڑکی کا ہی قصور ہوگا۔ خواتین کو ہی زیادہ تر الزام دیا جاتا ہے۔ اگر آپ کا ریپ ہوا ہے تو وہ سب اس وجہ کو تلاش کریں گے کہ آخر آپ کا ریپ کیوں ہوا۔‘
ڈینا المایوف جنھوں نے 2012 میں سعودی عرب چھوڑ دیا تھا کہتی ہیں کہ وہ واپس سعودی عرب جانے سے بہت خوفزدہ تھیں۔ وہ اسلام چھوڑ چکی ہیں جس کی اسلامی قوانین اور سعودی نظام میں سزا موت ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ بعض اوقات لوگ چھوٹے بچوں کو مسجدوں، یتیم خانوں یا ہسپتالوں کے باہر چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ ان بچوں کو خود حوالے نہیں کر سکتے کیوں کہ انھیں ڈر ہوتا ہے کہ اس بچے کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ یہ کہاں سے آیا۔
ڈینا جو کہ ایک فوٹوگرافر بھی ہیں اس بارے میں مزید کہتی ہیں کہ سعودی خواتین کبھی کبھار غیرقانونی طریقے سے اسقاط حمل بھی کروا لیتی ہیں لیکن ان کے مطابق یہ سہولت صرف ان خواتین کو حاصل ہوتی ہے جو یا تو امیر ہوں یا ان کے تعلقات ہوں۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ’بعض اوقات خاندان والے اس لڑکی کو مار دیتے ہیں جو بچے کو چھوڑ آئے اور سب کو بتاتے ہیں کہ اس لڑکی نے اپنی جان خود لی ہے۔‘
’یا پھر اس لڑکی کو گھر میں قید کر دیا جاتا ہے کیونکہ اس کے گھر والے اس پر بھروسہ نہیں کرتے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ لڑکی کو نہ تو مارا جائے اور نا ہی قید کیا جائے۔‘
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق پر تحقیق کرنے والی سینیئر اہلکار روزینہ بیگم اس بارے میں کہتی ہیں کہ ’یہ ایک بڑا مسلہ ہے کہ بچوں کو سڑکوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ شادی کے بغیر بچے پیدا کرنا ایک جرم ہے۔‘
’اگر آپ کسی طرح حکام کی نظر سے بچ بھی جائیں تو خواتین سزا سے بچنے کے لیے بچوں کو سڑکوں پر چھوڑنے کا انتخاب کرتی ہیں۔‘
’افسوس کی بات یہ ہے کہ بچوں کو اس طرح سے نہ چھوڑا جاتا اگر یہ جرم نہ ہوتا۔ آپ کے قوانین ہی ایسے ہیں کہ لوگ بچوں کو اس طرح سے چھوڑ جاتا ہیں۔‘
خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے کارکنوں کو قید کرنے کی وجہ سے سعودی عرب انسانی شدید تنقید کی ذد میں رہتا ہے۔ یمن کی جنگ میں سعودی کردار اور سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر بھی سعودی عرب شدید تنقید کا سامنا کرتا رہتا ہے۔
تاہم اس حوالے سے سعودی حکومت کے نمائندے سے رابطہ کیا گیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔