فن لینڈ کی وزارت انصاف کے مطابق جنسی جرائم کے مجوزہ قوانین کے تحت ملک میں غیر مطلوبہ نازیبا تصاویر بھیجنے والے مردوں کو چھ ماہ تک جیل کی سزا کاٹنی پڑ سکتی ہے۔
موجودہ نافذ قوانین میں جنسی ہراسانی میں صرف چھونے جیسے عمل شامل ہیں جبکہ اعضائے مخصوصہ کی تصاویر بھیجنے کو جنسی جرم نہیں سمجھا جاتا۔ جس کے نتیجے میں ایسے مجرموں کو صرف ملک میں نافذ ہتک عزت کے قانون کے تحت سزا دی جا سکتی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق وزارت انصاف کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے جنسی ہراسانی کی تعریف میں توسیع لائی جا رہی ہے جس میں ’زبانی ہراسانی، تصاویر یا پیغامات کے ذریعے ہراسانی، اپنی یا کسی اور کی تصاویر لینا یا ان کی تشہیر کرنے جیسے افعال شامل ہیں۔‘
ان جرائم کی مختلف سزائیں ہیں جو جرمانے یا جیل کی صورت میں جرم کی سنگینی کو مدنظر رکھ کر دی جاتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فن لینڈ کی وزارت انصاف کے مشیر سامی کیریاکوس نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ مجوزہ قوانین حکومت کو ’اگلے سال‘ بھیجے جا سکتے ہیں تاکہ ان پر پارلیمنٹ میں ووٹنگ کرائی جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ تحقیق کے مطابق ’جنسی ہراسانی بہت عام ہے‘ جس کی وجہ سے ’ضروری ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ اس سے قانونی طور پر نمٹنے کا طریقہ ہو۔‘
ان کا یہ بیان بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی چیریٹی پلان انٹرنیشنل کی اس تحقیق کے بعد سامنے آیا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ سروے میں شامل 14 ہزار خواتین میں سے نصف سے زائد آن لائن جنسی ہراسانی کا نشانہ بن چکی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس سروے میں شامل خواتین کی عمر 15 سے 25 سال کے درمیان تھی جن میں سے 35 فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں ’غیر مطلوبہ جنسی یا نازیبا تصاویر بھیجی جا چکی ہیں۔‘
گو کہ کچھ ممالک میں آن لائن جنسی ہراسانی کو اب تک جرم نہیں قرار دیا گیا۔ سکاٹ لینڈ نے اس کو 2010 میں جرم قرار دیا تھا جبکہ امریکی ریاست ٹیکسس میں غیر مطلوبہ جنسی تصاویر بھیجنے کے جرم کے مرتکب افراد کو 500 ڈالر تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔
فن لینڈ میں جنسی ہراسانی کی تعریف میں توسیع کے ساتھ ساتھ اس نئے قانون میں ریپ کی تعریف کو بھی بدلا جائے گا اور رضامندی کے بغر سیکس کو ریپ کا درجہ دیا جائے گا۔ موجودہ قوانین کے تحت ریپ صرف جسمانی تشدد یا جسمانی طور پر لاحق خطرے کی صورت میں ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
© The Independent