وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی امور ڈاکٹر معید یوسف کی جانب سے حال ہی میں ایک بھارتی صحافی کو دیے گئے انٹرویو کے بعد اس حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ آیا اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان مذاکرات کے لیے بیک ڈور رابطے جاری ہیں؟
معاون خصوصی برائے قومی سلامتی امور ڈاکٹر معید یوسف نے دو روز قبل بھارتی صحافی کرن تھاپڑ کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ بھارت نے پاکستان سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا ہے جبکہ پاکستان نے کشمیر کو شامل کرنے کی شرط عائد کی ہے۔
I appeared on @thewire_in to talk about peace in the region. Exposed previously unrevealed information about regular Indian state sponsorship of terrorism against Pakistan and laid out clear conditions for forward movement centered on the Kashmiri people. https://t.co/WzFuXydGzy
— Moeed W. Yusuf (@YusufMoeed) October 13, 2020
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل ساؤتھ ایشیا اور ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ سے سوال کیا کہ معاون خصوصی ڈاکٹر معید یوسف کے مطابق بھارت مذاکرات کا حامی ہے تو کیا اس سلسلے میں کوئی باضابطہ پیغام بھیجا گیا یا دونوں ملکوں میں تعلقات کی بحالی کے لیے بیک ڈور رابطے جاری ہیں؟ تو انہوں نے بھارت کی جانب سے مذاکرات کا باضابطہ پیغام بھیجے جانے کے معاملے پر جواب نہیں دیا جبکہ بیک ڈور رابطوں کے معاملے پر نہ تو تردید کی اور نہ ہی تصدیق۔
زاید حفیظ نے کہا: ’معاون خصوصی ڈاکٹر معید یوسف نے جو بیان دیا ہے اس میں مزید شامل نہیں کروں گا۔ جو انہوں نے کہہ دیا، وہی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بھارت مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے کیونکہ اس کے بغیر مذاکرات ناممکن ہیں، جبکہ مذاکرات کشمیریوں کی شرکت کے بغیر بھی ناممکن ہیں۔‘
سینیئر سفارتی ذرائع کے مطابق معاون خصوصی برائے قومی سلامتی کا بھارتی صحافی کو انٹرویو دینا ہی ’برف پگھلنے‘ کے مترادف ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مذکورہ ذرائع نے بتایا کہ ’جب سرکاری سطح کے بغیر صحافیوں کو انٹرویو کے ذریعے رابطے کی خبریں دی جائیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ پس پردہ رابطے شروع ہو چکے ہیں۔‘
دوسری جانب بھارتی وزیر خارجہ نے ڈاکٹر معید یوسف کے انٹرویو کے بعد جمعرات کو اس بیان کو مسترد کر دیا کہ بھارت نے کسی بات چیت کا عندیہ دیا یا مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سرواستوا نے کہا کہ بھارتی حکومت نے پاکستانی حکومت کو ایسا کوئی پروپوزل بالواسطہ یا بلاواسطہ نہیں بھیجا۔
بیک ڈور رابطوں کی ضرورت کب محسوس ہوتی ہے؟
جب دو ممالک کے درمیان بظاہر براہ راست سفارتی رابطوں میں خلل آ جائے تو بیک ڈور اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا استعمال کیا جاتا ہے اور براہ راست ڈپلومیسی کے لیے راہ ہموار کی جاتی ہے۔ یہ رابطے جنگوں کے دوران بھی جاری رہتے ہیں۔
سابق سفیر عبد الباسط نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ ’ٹریک ٹو ڈپلومیسی اور بیک ڈور ڈپلومیسی میں فرق ہوتا ہے۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی سرکاری افسران کی بجائے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کے ذریعے ہوتی ہے۔ وہ شعبہ تعلیم سے بھی ہوسکتے ہیں، صحافی بھی اور اداکار بھی جبکہ بیک ڈور ڈپلومیسی دونوں ممالک کے سرکاری افسران کی باہمی نجی ملاقات کو کہا جاتا ہے، جیسے ماضی میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر کسی تیسرے ملک میں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر سے ملتے رہے۔‘
واضح رہے کہ بھارت کے پاکستان میں تعینات سابق ہائی کمشنر اجے بساریہ کی تعیناتی کے دوران بھی مقامی تھنک ٹینک نے دونوں ممالک کے درمیان پبلک ڈپلومیسی کی ترویج کے لیے وفد تشکیل دیا تھا جو صحافیوں اور شعبہ تعلیم سےمنسلک افراد پر مشتمل تھا لیکن گذشتہ برس پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان فضا اتنی کشیدہ ہو گئی کہ تھنک ٹینک کو یہ دورہ منسوخ کروانا پڑا۔
ماضی میں کتنی بار بیک ڈور یا ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی گئی؟
اس حوالے سے سابق سفیر عبدالباسط نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب وہ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر تھے تو ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ساتھ ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی بھی جاری تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’2015 میں جب بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ہارٹ آف ایشیا کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو اس دورے کو ممکن بنانے کے لیے انہوں نے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اور سیکرٹری خارجہ سے ملاقاتیں کیں کیونکہ اس وقت پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف چاہتے تھے کہ سشما سوراج ہارٹ آف ایشیا کانفرس میں ضرور شرکت کریں۔‘
اس حوالے سے سابق مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 30 نومبر 2015 کو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف پیرس کانفرنس میں شرکت کے لیے وہاں موجود تھے جبکہ ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی بھی وہیں تھے۔
’لابی میں مودی نے نواز شریف کو بازو سے پکڑا اور صوفے پر اپنے ساتھ بٹھا کر کہا کہ بات آگے بڑھنی چاہیے تو نواز شریف نے انہیں کہا کہ پھر آپ اپنی وزیر خارجہ کو دسمبر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے بھیجیں، اس پر نریندر مودی نے کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے لیکن اس سے پہلے دونوں ممالک کے قومی سلامتی مشیروں کی ملاقات ہونی چاہیے۔ نواز شریف نے جواب دیا کہ مشیر مل سکتے ہیں، جس کے بعد چھ دسمبر کو بنکاک میں پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں نے آپس میں ملاقات کی اور آٹھ سے دس دسمبر کو ہونے والی کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے شرکت کی۔‘
سرتاج عزیز نے بتایا کہ ’بیک ڈور ڈپلومیسی میں حکومتی عہدیداران یا مشیروں کی ملاقاتیں کیمرے کے بغیر اور پس پردہ ہوتی ہیں، تاہم موجودہ بھارتی سیٹ اپ میں ممکن نہیں لگ رہا کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔‘
سابق مشیر خارجہ نے مزید کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ابھی پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسے مضبوط گراؤنڈ موجود ہیں جن کی بنیاد پر بیک ڈور ڈپلومیسی ہوسکے کیونکہ بیک ڈور ڈپلومیسی کے لیے بھی حالات سازگار ہونے کی ضرورت ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی اگر کہیں ہے تو اس بارے میں انہیں علم نہیں ہے۔
ٹوئٹر پر اس حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے فوجی امور پر گہری نظر رکھنے والی ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے لکھا: 'معید یوسف کا انٹرویو مذاکرات کی حوصلہ افزائی کے لیے نہیں بلکہ ان کا راستہ روکنے کے لیے تھا۔ یہ پاکستان کو مستقبل میں مذاکرات کے لیے درکار راہیں بند کر دے گا۔'
Moeed Yusuf interview was not to talk but to stop talk - exposing back channel was not diplomatically clever & takes the option away even when Pak wants it in future https://t.co/MbVLIFEYL1
— Ayesha Siddiqa (@iamthedrifter) October 16, 2020