’ہم دھوکے میں رہ گئے، ہمارا مقصد یہ نہیں تھا، ہم سے کچھ اور کام لے لیا گیا!‘ یہ گذشتہ چار دہائیوں کے دوران ’ایرانی انقلاب‘ سے مایوس چند شخصیات کے دعوے رہے ہیں۔
ان جیسے کئی دعوؤں کے مطابق آیت اللہ خمینی، جنہوں نے ایران میں آئینی بادشاہت کے خلاف آخری بغاوت میں نمایاں کردار ادا کیا تھا، انہوں نے اس وقت کے بائیں بازو سے لے کر دائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کو تقیہ اور دیگر حربوں سے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا اور اس میں کامیاب رہے تھے۔
مدعا علیہان کا دعویٰ ہے کہ اس دور میں خمینی استعمار اور آمریت کے خلاف جدوجہد کے رہنما کے طور پر نمودار ہوئے لیکن حقیقت میں وہ پچھلے نظام سے بھی بدتر نظام کے بانی بن گئے۔
لیکن کیا اسے ان کی دھوکہ دہی کہا جاسکتا ہے؟ کیا دھوکہ اتنا یکطرفہ ہوسکتا ہے؟ مثال کے طور پر کیا ایران ایک کالونی تھا جس میں خمینی ایک نوآبادیات مخالف رہنما بن کے سامنے آ گئے؟
ان سوالوں کے جوابات کی تلاش میں، میں نے انقلاب سے پہلے اور اس کے بعد آیت اللہ کی تحریروں اور اقوال کو جانچا۔
1978 اور 1979 کے دوران میں نے انگریزی میں ’روح القدس اور اسلامی انقلاب‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ میں نے سوچا کہ ایران میں ان کی فتح کے ابتدائی دنوں میں آیت اللہ کی تقاریر پر ایک مختصر نظر ڈالنا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہوگا کہ وہ دوسروں کی مرضی کے بغیر نہ تو ان کو دھوکہ دے سکتے تھے اور نہ انہوں نے ایسا کیا۔ دوسرے لفظوں میں کسی کو بھی دھوکہ مسلسل اس کی مرضی کے خلاف نہیں دیا جا سکتا۔
’انقلاب‘ کا مقصد کیا تھا؟ قم میں بائیں بازو کے رہنماؤں نے جب یہ سوال کیا تو خمینی نے کہا: ’ہمارا مقصد قرآنی انسان پیدا کرنا ہے۔ جان لو کہ فتح کا راز شہادت کی خواہش بیدار کرنا ہے۔ اس دنیا میں جانوروں کی سی زندگی مت گزارو۔ قرآن نے انسان کو خدائی طاقت سے ہمکنار کرکے آگے بڑھایا۔ مسلمانوں نے نصف صدی سے بھی کم عرصے میں کئی سلطنتوں کو فتح کیا۔‘
اسے ہم سمجھنا چاہیں تو انہوں نے بات واضح الفاظ میں سمجھائی تھی کہ مارکس اور اینگلز کا ’کمیونسٹ پارٹی چارٹر‘ قرآن کی جگہ نہیں لے سکتا اور جدلیاتی مادیت ایک بچے کا کھیل ہے۔ خمینی کے بقول ’یہ پرولتاری جدوجہد نہیں تھی، یہ اسلام تھا جس نے ہمیں فتح سے ہمکنار کیا۔‘
کچھ نام نہاد قوم پرست رہنماؤں کی موجودگی میں خمینی نے قوم پرستی کو ’صہیونی‘ سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہا: ’صیہونیوں نے مسلمانوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ پوری دنیا میں ایک ارب کے قریب مسلمانوں کے درمیان یہ تفرقہ پھیلا ہوا ہے۔ امت مسلمہ کو تقسیم کرکے انہوں نے مختلف قومیں تشکیل دیں جن کا ذکر اسلام کے آغاز میں نہیں تھا۔‘
’سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں جب مسلمانوں کے پاس ایک مضبوط حکومت تھی اور وہ اتنے طاقتور تھے کہ کبھی کبھی جاپان اور سوویت یونین سے جنگ کرتے اور فتح یاب ہوتے تھے، تب بھی وہ پوری امت کے اتحاد سے خوفزدہ تھے۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دور کے معززین نے خاموشی کے ساتھ آیت اللہ کے ان اقوال کو قبولیت بخشی اور سر ہلاتے رہے۔ انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ سلطنت عثمانیہ نے کبھی جاپان یا سوویت یونین سے مقابلہ نہیں کیا۔ انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ آیت اللہ کی تعریف کردہ سلطنت عثمانیہ صفوی حکومت اور ان کے شیعہ اتحادیوں کے ساتھ کم و بیش چار صدیوں سے جنگ کر رہی تھی اور یہ وہ وقت تھا جب ’صیہونیت‘ ابھی قائم بھی نہیں ہوئی تھی۔
ایک عشائیے میں آیت اللہ نے کہا: ’ہمارا دشمن صرف محمد رضا پہلوی ہی نہیں تھا، جو بھی اسلام کے راستے پر نہیں ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔ اس کا جو بھی نام ہو۔ جو بھی ’جمہوریت‘ چاہتا ہے وہ ہمارا دشمن ہے، کیونکہ وہ اسلام کا دشمن ہے۔ ہم یہ گھناؤنی بادشاہت نہیں چاہتے تھے۔ ہم آسمانی بادشاہت چاہتے ہیں جس میں خدائی احکامات پورے ہوں۔‘
دوسرے لفظوں میں ’مذہبی جمہوریت‘ جیسی اصطلاحات آیت اللہ خمینی کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں پاسکتی تھیں۔
جمہوری کارکنوں کے ایک گروپ کے اعزاز میں آیت اللہ نے اپنے مؤقف کا اعادہ کیا کہ ’جو ایک جمہوری ریاست کی بات کرے، وہ ہمارا دشمن ہے۔ کیونکہ وہ اسلام نہیں چاہتا۔ ہم اسلام چاہتے ہیں، ہم جمہوریت نہیں چاہتے۔ ہمارے نوجوانوں نے لہو دیا کیونکہ وہ اسلام چاہتے تھے جمہوریت نہیں۔ ہم اسلام کے بغیر آزادی نہیں چاہتے۔ ہم اسلام کے بغیر آزادی نہیں مانگتے۔ اسلام کے بغیر آزادی کی اہمیت کیا ہے؟ اسلام کے بغیر ہزار آزادیاں ہوں تو ان کا کیا فائدہ؟ دوسرے ممالک میں ایسی آزادی ہے، ہم اسے نہیں چاہتے۔ ہماری ساری پریشانی ان لوگوں کی وجہ سے ہے جو آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن وہ آپ کے لیے ایک ایسا مغربی ملک بنانا چاہتے ہیں جس میں آپ ہر پابندی سے آزاد ہوں۔ جہاں کوئی معبود، کوئی نبی، وقت کا کوئی امام، کوئی قرآن، خدا کا کوئی اصول نہ ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ سوئٹزرلینڈ کی طرح بنیں، لیکن امت یہ نہیں چاہتی۔ وہ قرآن چاہتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یقیناً وہاں موجود کسی بھی معزز شخص نے یہ ذکر کرنے کی ہمت نہیں کی کہ سوئٹزرلینڈ بہت بری جگہ نہیں ہے اور اس کا مسلمان ہونا ممکن ہو یا نہیں لیکن وہ ایسی جگہ ہے جہاں مکمل انسانی آزادی، امن، بقائے باہمی اور خوشحالی موجود ہے۔
خمینی نے کبھی بھی اپنے مقاصد نہیں چھپائے۔ وہ واضح طور پر ولایت فقیہ پہ مبنی ایک ایسی حکومت چاہتے تھے جو علما کی ہو۔ وہ مقالہ جو انہوں نے ’اسلامی ریاست‘ نامی اپنی کتاب میں انقلاب سے کئی سال پہلے پیش کیا تھا اس میں بھی یہی خیالات واضح تھے۔
آیت اللہ خمینی نے اپنی اسلامی کمیٹی کے ممبروں سے خطاب کے دوران ایک تقریب میں کہا کہ ’جو بھی مولویوں کی مخالفت کرتا ہے وہ آپ کا دشمن ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ شاہ کی حکومت نہیں چاہتے اور وہ اس کے مخالف ہیں۔ وہ غیر ملکی سوچ نہیں چاہتے لیکن وہ مولوی کو بھی نہیں دیکھنا چاہتے۔ اسلام اور علمائے دین آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ جو مولوی کا دشمن ہے وہ تمہارا دشمن ہے۔ وہ تمہیں آزادی مہیا کرنا چاہتا ہے، لیکن ایسی آزادی جس میں اپنے دور کا کوئی امام نہیں، ایسی آزادی جس میں اسلام کا کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ ہم ان سب کے ساتھ بھی اسی طرح لڑیں گے جس طرح ہم نے محمد رضا (بادشاہ) کے ساتھ کیا تھا۔ اسلام مائنس مولوی غداری ہے۔ وہ اسلام نہیں۔ اگر ملائیت کا خاتمہ ہوجائے تو اسلام کا کام نہیں چل سکے گا۔ اگر مولوی چلے گئے تو سارا ملک چلا جائے گا۔‘
یقیناً امام کی مخاطب علما کمیٹی میں جواب دینے کی ہمت یا طاقت نہیں تھی۔ وہ یہ بھی نہیں یاد کرسکتے تھے کہ باقی دنیا کے 95 فیصد مسلمان علما کی حکومت کے بغیر ہی زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کے بغیر پائے جانے والے اسلام کو ’غداری‘ سے تعبیر نہیں کرتے۔
آیت اللہ نے یونیورسٹی کے پروفیسرز کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران تہران یونیورسٹی کے انقلابی صدر ڈاکٹر مالکی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’اگر آپ کو لگتا ہے کہ سائنس انسانیت کی خوشی کا باعث ہے تو آپ غلط ہیں، کیونکہ سائنس بعض اوقات بہت سے اختلافات سے بھرپور ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر یونیورسٹی بچوں کو یہ تعلیمات اسلام سے ہم آہنگ کرکے دے تو اس کا فائدہ ہے۔‘
’آپ ڈاکٹر پیدا کرتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر کل ایک تاجر بن جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے علم کے لحاظ سے ایک اچھا ڈاکٹر ہو، لیکن چونکہ وہ اسلامی ذہن نہیں رکھتا ہوگا لہذا وہ نسخے پر دوا کا قیمتی ورژن لکھے گا اور اسے مہنگا فروخت کرے گا۔ آپ اپنی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے بچوں کو ایک مکمل مسلمان بنا کر باہر نکالیں۔‘
واقعی اس بار بھی حاضرین میں سے کسی نے یہ پوچھنے کی جرات نہیں کی کہ آیت اللہ خمینی کب سے اعلیٰ تعلیم کے ماہر بن گئے؟
متعدد صحافیوں، دانشوروں اور مفکرین کی موجودگی میں آیت اللہ مغربی جمہوریت اور کمیونسٹ نظام سے اپنے موجودہ ایرانی غیر واضح شدہ حکومتی ماڈل کا تقابل کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’ایران ایک اسلامی ملک ہے۔ اس کے قوانین بھی اسلامی ہیں۔ آئین میں یہ شق موجود ہے کہ جو کچھ بھی اسلامی اصولوں کے خلاف ہے وہ غیر قانونی ہے۔ یعنی کوئی قانون جو قرآن کے کہنے کے خلاف ہے وہ قانون ہو ہی نہیں سکتا۔‘
اس بار بھی وہاں موجود دانشوروں میں سے کسی نے یہ کہنے کی ہمت نہیں کی کہ پچھلے دور میں بھی ایران ایک اسلامی ملک تھا۔ جیسے کہ آیت اللہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ صرف حکومت پر ملائیت کے تسلط۔ کی کمی تھی۔ یہاں تک کہ لفظ ’ملک‘ جس کا مطلب بادشاہت کی ملکیت ہے، آیت اللہ نے اس شرط پر قبول کیا کہ مولوی کی ’جائیداد‘ کو ’ولی الفقیہہ‘ کا رتبہ دیا جاتا ہے۔
اس دور کے ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر کریم سنجابی کی موجودگی میں، جب آیت اللہ کو یورپ بھیجے جانے والے ایرانی سفارت کاروں کو ضروری تربیت فراہم کرنا مقصود تھا، اپنے خطاب کے دوران خمینی نے کہا: ’انہوں نے (سابقہ حکومت) مغرب اور اس کی ترقی کے بارے میں اتنا پروپیگنڈا کیا کہ ہمارے نوجوانوں کو مغربی بنا دیا اور اسلامی دماغ کی جگہ مغربی دماغ پیدا کردیے۔ ہمارے بیشتر بچے اور نوجوان یقین رکھتے ہیں کہ سب کچھ مغربی ہونا چاہیے، لیکن مغرب نے صرف مادی ترقی کی ہے۔ دوسری جانب دیکھیں تو انہوں نے دنیا کو لڑاکا اور وحشی بنا دیا ہے۔ مغربی تعلیم نے انسان کو اپنی انسانیت سے محروم کر دیا ہے۔ مغربی انسان اب انسان نہیں رہا۔ اس کے بجائے وہ ایک شکاری پیدا کر رہے ہیں۔ اور یہ پروپیگنڈے اس شکاری کے پنجے ہیں۔ مغرب جو آزادی چاہتا ہے وہ غلامی کی آزادی ہے۔ یہ اسلامی روایت کے خلاف ہے۔ ہم مغربی تعلیم کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اسے اسلامی تعلیم سے بدلنا چاہتے ہیں۔‘
حاضرین میں سے کوئی یہ سوال نہیں پوچھتا کہ آیت اللہ مغربی تہذیب سے کہاں اور کیسے واقف ہوئے؟ سنجابی نے دوران گفتگو ایک بار یہ ضرور کہا کہ ’جب ہم پیرس میں تھے۔‘ لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ’امام‘ صرف چار ماہ کے لیے فرانس گئے تھے اور انہوں نے پیرس کبھی گھوم کر نہیں دیکھا تھا۔ کیونکہ وہ ہوائی اڈے سے سیدھے ’نوفلو شاتو‘ کے قصبے گئے تھے اور وہاں سے وہ اسی ہوائی اڈے پر واپس تہران جانے کے لیے تشریف لائے تھے۔ بہرحال، سوچنے کی بات یہ ہے کہ مغرب کو جانے والے سفارت کاروں کو کیسے پوری مغربی تہذیب کی توہین کرنے کی ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے؟
مغربی دانشوروں کے ایک گروپ کے اعزاز میں آیت اللہ معمول کے موضوعات کو دہراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’درآمد شدہ مغربی ممالک کے دانشوروں کی پیروی چھوڑ دیں۔ انہیں اگر مزے چاہیں تو وہ یورپ واپس چلے جائیں۔‘
آیت اللہ نے ایک سوویت نواز مارکسی گروپ کے اعزازیے میں کہا: ’کچھ لوگ آمرانہ کمیونسٹ بننے کے لیے راضی ہیں لیکن ملائیت کے لیے نہیں۔ وہ ملاؤں سے ڈرتے ہیں۔ وہ آمروں سے نہیں ڈرتے، پگڑیوں سے ڈرتے ہیں، لیکن بدترین آمریت وہی ہے جو کمیونسٹوں کی مسلط کردہ ہے۔ یہاں تک کہ مغرب میں بھی ایسا ڈکٹیٹر نہیں ہے۔‘
ایک تقریب کے دوران ایرانی وزیر انصاف نے بظاہر امام سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران میں دی جانے والی پھانسیوں کے بارے میں سخت بین الاقوامی ردعمل پر اپنا مؤقف دیں، آیت اللہ نے کہا: ’اسلام کے انسانی حقوق وحشی مغربی ممالک کے انسانی حقوق سے مختلف ہیں۔‘ ہم نے پاکروان، القیان اور ہویدا کو پھانسی دی، اگر ہم بختیار اور شریف امامی کو پکڑ لیں تو ہم انہیں بھی انسانی حقوق کے لیے پھانسی دیں گے۔‘
جمہوریہ ایران کے حامی برسوں سے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ خمینی کبھی نہیں چاہتے تھے کہ اسرائیل تباہ ہو، لیکن انہوں نے متعدد تقاریب میں اپنا موقف واضح کیا تھا۔
انہوں نے کہا: ’اسرائیل فساد کی جڑ ہے۔ اگر یہ ختم نہیں ہوتا تو یہ پورے علاقے پر قابض ہو گا۔ یہ صرف فلسطین اور مسجد اقصیٰ پر قبضے سے مطمئن نہیں ہے۔ وہ ہر جگہ قبضہ چاہتا ہے۔اس غاصب حکومت سے نجات یقینی ہے۔ میں 20 سال سے عربوں کو اس (اسرائیلی) بدعنوانی کو مسترد کرنے کا مشورہ دے رہا ہوں۔‘
خمینی بار بار اپنا موقف واضح کرچکے ہیں۔ وہ قوم پرستی، جمہوریت، آزادی اور پلورل ازم کے دشمن ہیں۔ انہوں نے بارہا ایک ایسی حکومت کا مطالبہ کیا ہے جس میں جبہ و دستار کے پاس حکومتی سربراہی ہے۔ وہ بادشاہت کے مخالف بھی نہیں ہیں، لیکن ان کی بادشاہت کا مقصد ملائیت کی سربراہی کا قیام اور آئینی (پہلوی دور) بادشاہت کا رد ہے۔
جن لوگوں کو خمینی کے دھوکا دینے کی شکایت ہے، اصل میں وہ خود ہی دھوکا کھا گئے۔ وہ یہ نہیں دیکھ سکے کہ قریب ایک صدی بعد بھی ایران کو اس انتخاب کا سامنا ہے: مذہب یا آئین؟
اس مضمون میں دیے گئے خیالات اور آرا مصنف کے ذاتی ہیں اور ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔