اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوالات اٹھائے ہیں کہ بحریہ فاؤنڈیشن جیسے ریاستی اداروں کے تحت چلنے والی کمپنیاں کس قانون کے تحت تعمیراتی اور دوسری کاروباری سرگرمیوں میں ملوث ہوتی ہیں اور کیا ان کے مالی معاملات کا آڈٹ ہوتا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ ہفتے کو پاکستان نیول فارمز اور نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر کے خلاف درخواست کی سماعت کر رہے تھے۔
سماعت کے دوران انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’ایسی (نیول فاؤنڈیشن جیسی) کمپنیوں کو مالی نقصان کی صورت میں عوام کا پیسہ ڈوب جائے گا اور کیا ایسی صورت میں اس ریاستی ادارے (پاکستان بحریہ) کے سربراہ کے خلاف مقدمہ قائم کیا جائے گا؟‘
عدالت کے سوالات اٹھانے پر پاکستان بحریہ کے وکیل ملک قمر افضل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت نے 1981 میں بحریہ فاؤنڈیشن قائم کرنے کی اجازت دی تھی جو ابھی تک کام کر رہی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نیوی کے وکیل ملک قمر افضل سے دریافت کیا کہ ’پاکستان بحریہ کس قانون کے تحت زمینیں خرید سکتی ہے اور بحریہ فاؤنڈیشن یہ کاروبار کیسے کر سکتی ہے؟‘
اس پر پاکستان بحریہ کے وکیل نے بتایا کہ ’یہ زمینیں پاکستان نیوی نہیں خریدتی بلکہ وہ ڈائریکٹوریٹ خریدتی ہے جو اپنے کام میں آزاد ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’بحریہ فارمز بھی بحریہ فاؤنڈیشن کا پروجیکٹ تھا۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید دریافت کیا کہ ’اگر یہ کسی سے قرض لیتے ہیں اور ان کو کاروبار میں نقصان ہوجائے تو کیا کیس بحریہ کے سربراہ کے خلاف بنے گا؟‘
انہوں نے پاکستان بحریہ کے وکیل کے پیش کردہ دلائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے جو پڑھا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی غلطی کی ذمہ دار تو یہ کمیٹی ہوگی۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید ریمارکس دیے کہ ’قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور کوئی اس سے کسی صورت بھی بالاتر نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ درمیان میں آ جاتا ہے۔‘
انہوں نے بحریہ کے وکیل سے دریافت کیا کہ ’کیا پاکستان بحریہ ٹریول ایجنسی بھی چلاتی رہی ہے اور کیا وہ اب بھی چل رہی ہے؟‘
جس پر وکیل ملک قمر افضل نے جواب دیا کہ ’یہ سب مشترکہ منصوبے ہیں اور فی الوقت ان کی تفصیلات ان کے پاس نہیں ہیں۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ ’بحریہ فاؤنڈیشن ایک نجی کمپنی یا سکیم ہے تو کیا اس کے مالی معاملات کا آڈٹ بھی ہوتا ہے یا نہیں؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم وکیل صفائی نے اس سلسلے میں بھی اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اس موقع پر مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر وفاقی سیکرٹری داخلہ یا افسران نجی طور سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اسے وزارت یا ان سے متعلقہ محکموں کی سرمایہ کاری قطعاً نہیں کہا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے نام کوئی چیز ہو جائے تو اس میں ہمیشہ متعلقہ ہائی کورٹ کا نام آئے گا اور اس کی ملکیت ہائی کورٹ کی ہی ہو جائے گی۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اس مقدمے میں مالکانہ حقوق پاکستان بحریہ کے ہیں نہ کہ کسی ڈائریکٹوریٹ کے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے عدالت میں موجود کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے افسر سے دریافت کیا کہ کس قانون کے تحت سرکاری محکمے یا ادارے ہاؤسنگ سکیمیں بنا سکتے ہیں؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’سی ڈی اے نے وفاقی دارالحکومت کے ماسٹر پلان کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔‘
ساتھ ہی چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سی ڈی اے کے افسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو عدالت کو مطمئن کرنا پڑے گا کہ پاکستان بحریہ کو تعمیراتی کام کی اجازت کس طرح دی گئی۔‘
وکیل کے دلائل کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ ’کون سا قانون زون فور میں کسی سرکاری محکمے یا ادارے کو رہائشی سوسائٹی بنانے کی اجازت دیتا ہے اور عام شہریوں کو اس حق سے محروم رکھتا ہے؟‘
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’ایک عام پاکستانی شہری کو تو سی ڈی اے نے اس کی اجازت نہیں دی لیکن بعد میں پاکستان بحریہ کو بخوشی این او سی جاری کر دیا گیا۔‘
پاکستان بحریہ کے وکیل ملک قمر افضل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت کو ریگولیشنز کی تفصیلات بتانے کے لیے سی ڈی اے کے افسر آئے اور کسی غلطی کی صورت میں عدالت سے پیشگی معذرت طلب کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سی ڈی اے اہلکار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے، آپ کا زور صرف غریب پر چلتا ہے امیروں کو آپ بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘