صوبہ سندھ میں مسلسل بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور برادریوں کے جھگڑوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مہردار آرٹ اور پروڈکشن نے اپنے خصوصی پروجیکٹ کے تحت تین اضلاع شکار پور، خیرپور اور جیکب آباد کے نوجوانوں کو دستاویزی فلم بنانے کی تربیت فراہم کی ہے تاکہ وہ اپنے اپنے علاقوں کی کہانیاں سناسکیں۔
مہردار آرٹ اینڈ پروڈکشن کے سی ای او محمد فہیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم نے انہیں بتایا اور سکھایا کہ وہ اپنی کہانی سنانے کے لیے میڈیا کا انتظار نہ کریں ، بلکہ آپ خود میڈیا بن سکتے ہیں۔‘
محمد فہیم کے مطابق ہر ضلع سے 25 ایسے نوجوانوں کو تربیت فراہم کی گئی، جنہیں اس کام کا شوق تھا۔ ان 25 میں سے دس خواتین اور 15 مرد تھے جن کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان تھیں۔
انہوں نے مزید تفصیلات بتایا کہ ان نوجوانوں کو منتخب کرنے کا عمل رواں برس مئی میں لاک ڈاؤن کے دوران شروع کیا گیا تھا جبکہ ان کی تربیت 18 سے 25 جولائی کے درمیان آن لائن کی گئی۔
محمد فہیم نے بتایا: ’ابتداء میں تو صرف تربیت دینے ہی کا ارادہ تھا مگر بعد میں ہم نے ان سے 12 مختصر دستاویزی فلمیں بھی بنوائیں۔‘ یہ تمام دستاویزی فلمیں اب ان کے یوٹیوب چینل پر دستیاب ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے اختتام پر مہردار آرٹ اینڈ پروڈکشن کی جانب سے خیرپور کی شاہ عبدالطیف یونیورسٹی میں ایک خصوصی تقریب بھی منعقد کی گئی جس میں نہ صرف ان تمام دستاویزی فلموں کو دکھایا گیا بلکہ ان تمام نوجوانوں میں سرٹیفکیٹ بھی تقسیم کیے گئے۔
محمد فہیم کے مطابق اس کا مقصد ان نوجوانوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کرنا تھا، جس کی مدد سے ان علاقوں کی کہانیاں اور وہاں کے گم شدہ ہیروز کو سامنے لایا جائے اور ان برادریوں کے درمیان گفت و شنید کی فضا پیدا کی جاسکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سی ای او مہردار کے مطابق تربیت کے دوران شرکا کو بتایا گیا کہ دستاویزی فلموں کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف برادریوں میں مشترکہ باتیں کون سی ہیں اور ان پر زور دیا جاتا ہے کہ معاملات کو سیاہ و سفید کی صورت میں دیکھنے کی بجائے انسانیت کی بنیاد پر اور تنوع کے تناظر میں مثبت انداز میں دیکھنا ضروری ہے۔
مہردار بطور ادارہ سندھ کے بعد اب اسی قسم کی تربیت کا مرحلہ بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے بھی شروع کرنے کا رادہ رکھتا ہے۔
اپنے ادارے کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے محمد فہیم کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق لیاری سے ہے اور 2012 میں جب لیاری میں تشدد عام تھا تو انہوں نے اس زمانے میں اس کے خلاف دستاویزی فلم بنا کر کام کرنے کی کوشش کی تھی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کا یہ پروجیکٹ ان کی اپنی سرمایہ کاری پر چل رہا ہے اور وہ اپنی دیگر کمرشل پروڈکشنز کی آمدنی کا 20 فیصد اس طرح کے کاموں کے لیے وقف کردیتے ہیں۔