حالیہ مون سون بارشوں کے بعد دریائے سندھ میں معمول سے زیادہ طغیانی سے کچے کا علاقہ بھی زیر آب آ گیا۔
ایسے میں ایک عمر رسیدہ خاتون اپنے شوہر کے ساتھ طوفان کے باوجود چھوٹی سی ڈولتی کشتی کو کنارے تک لانے کی کوشش کرتی نظر آئیں۔ 70 سالہ عالمہ خاتون کا تعلق سندھ کے میربحر قبیلے سے ہے، جنہیں ’دریا کے بادشاہ‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
عالمہ نے انڈپیندنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: 'میرا جنم کشتی میں ہوا، شادی بھی کشتی میں کی اور یہیں 11 بچوں کی پیدائش ہوئی، بچے تو باہر (دریائے سندھ سے) چلے گئے، میرا تو جینا بھی کشتی میں اور مرنا بھی۔' انہیں یہ تو یاد نہیں کہ وہ کس سال پیدا ہوئیں، مگر ان کے مطابق پاکستان بننے کے دو یا تین سال بعد ان کی پیدائش ہوئی تھی اور ان کے شناختی کارڈ میں تاریخ پیدائش کا سال 1950 لکھا ہوا ہے۔
سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی گاؤں نوڈیرو ضلع لاڑکانہ سندھ سے متصل دریائے سندھ میں کشتی پر زندگی بسر کرنے والی عالمہ کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں شادی کرکے دریا کنارے گوٹھ برڑہ اور نوڈیرو شہر میں آباد ہوگئے، مگر ان کا رشتہ دریا سے نہ ٹوٹا۔ ’اب کہاں جانا، تمام زندگی اس ڈولتی کشتی میں گزار دی، زمین پر جاکر کیا کرنا ہے۔ اب تو مرنے کے بعد ہی زمیں پر جاؤں گی۔'
عالمہ بتاتیں ہیں کہ جب وہ پیدا ہوئیں تو اس وقت ان کی برادری کے کئی خاندان دریا سندھ کے اندر کشتیوں میں رہتے تھے، مگراب ان کے خاندان کے تمام لوگ مختلف شہروں اور گوٹھوں میں گھر بنا چکے ہیں، ان کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں خشکی پر گھروں میں قیام پذیر ہیں لیکن ان کا معاش آج بھی وہی ماہی گیری ہے۔
10سال کی عمر میں شادی ہونے کے بعد عالمہ نے اپنے شوہرعبدالکریم کے ساتھ ماہی گیری اور کشتی چلانے کا روزگار شروع کیا۔ ان کے شوہر ایک پیر سے معذور ہیں، پھر بھی کشتی رانی اور ماہی گیری میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ عالمہ کا اکثر بسیرا دریائے سندھ میں بائیں جانب نوڈیرو شہر سے دو کلومیٹر دور کیٹی ممتازعلی بھٹو میں برڑہ پتن پر ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے رات کو دریا میں جال لگاتی ہے اور دن میں اپنی کشتی سے مسافروں کو ضلع لاڑکانہ سے ضلع خیرپور میر پہنچاتی ہیں۔
عالمہ نے بتایا کہ ان کے جال میں کبھی ایک کلو تو کبھی زیادہ مچھلیاں بھی پھنستی ہیں، جنہیں فروخت کرکے وہ گزارہ کرتی ہیں اور مسافروں سے بھی انہیں کچھ رقم مل جاتی ہے۔ دریائے سندھ میں 2010 اوراس سے قبل کئی مرتبہ بڑے سیلابوں کی صورتحال میں عالمہ ایک سماجی کارکن کی طرح کچے کے گوٹھوں سے لوگوں کو ریسکیو کرنے کا کام بھی سرانجام دے چکی ہیں۔
عالمہ کے دن رات دریائے سندھ میں موجود اپنی کشتی میں گزارتی ہیں، وہ نانی اور دادی بن جانے کے باوجود صحت مند ہیں اور خود کشتی رانی کرتی ہیں۔ دریا سے صرف اس وقت ہی باہر نکلتی ہیں جب ان کے رشتے داروں میں کوئی شادی بیاہ یا فوتگی ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ عید کے دنوں میں وہ اپنے بیٹوں، بیٹیوں، پوتوں اور نواسوں سے ملنے شہر جاتی ہیں۔ ایک سات سال کا پوتا ان کے ساتھ کشتی میں رہتا ہے۔ علاقہ مکین عالمہ کی خدمات کے بدلے میں فصل تیارہونے پر انہیں کچھ اناج دان میں دیتے ہیں اور ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
عالمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے تمام زندگی کشتی میں بسر کردی، ان کو دریا سے محبت ہے۔ انہیں کشتی میں کھانا، پکانا، اوڑھنا بچھونا سکون دیتا ہے، انہیں دریا سے باہر کی زندگی اجنبی لگتی ہے۔ جب تک ان کی زندگی ہے وہ کشتی میں ہی جینا پسند کریں گی۔