پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر مصباح الحق نے ایک بار پھر اپنے دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں شاندارکارکردگی دکھانے والے متعدد کرکٹرز کو نظر انداز کر دیا۔
نیشنل کپ شروع ہونے سے پہلے مصباح اور ان کے ساتھی بلند بانگ دعوے کررہے تھے کہ زمبابوے کے خلاف نوجوان اور اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے گا لیکن جب ٹیم کا اعلان ہوا تو وہی پرانی ریت سامنے آگئی کہ جو من پسند ہیں انہی کو ہی کھلانا ہے۔
زمبابوے کی ٹیم اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے اور اس کی کارکردگی ہر قسم کی کرکٹ میں زیرو ہے، اس لیے مبصرین کا خیال تھا کہ ایک تیسرے درجہ کی ٹیم کے خلاف نوجوان اور ایسے کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے گا جو ڈومیسٹک میچز میں نمایاں کارکردگی دکھا رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ قومی ٹیم تک ان کی رسائی ممکن نہیں۔
مصباح الحق نے جب ٹیم کا اعلان کیا تو اس میں ایک دو نئے کھلاڑیوں کے علاوہ تمام پرانے کھلاڑیوں کے نام شامل تھے۔ ایک کمزور سی ٹیم کےخلاف پوری قوت سے میدان میں اترنا اپنی کمزوری اور اعتماد کی کمی کا اظہار ہے، جس سے ٹیم کو فائدہ کی بجائے نقصان ہونے کا احتمال ہے۔
نیشنل کپ میں کم میچز کی بنیاد پر سب سے زیادہ رنز بنانے والے 34 سالہ خرم منظور کو یہ کہہ کر یکسر نظر انداز کردیا کہ عمرزیادہ ہوچکی ہے جبکہ 40 سالہ محمد حفیظ کو شامل کرلیا گیا۔ اسی طرح عابد علی جنھیں ان کی ٹیم پنجاب سینٹرل نہیں کھلا رہی تھی اور جنہوں نے پانچ میچز میں 111 رنز بنائے تھے، انہیں ٹیم میں جگہ مل گئی لیکن 374 رنزبنانے والے صہیب مقصود کسی گنتی میں نہ رہے۔ صہیب کی طوفانی اننگز نے ہی جنوبی پنجاب کو سیمی فائنل میں پہنچایا تھا۔
سدرن پنجاب کے ذیشان اشرف جو پی ایس ایل میں بھی بہت اچھا کھیلے اور نیشنل کپ میں بھی 261 رنز سکور کر چکے ہیں ان پرروحیل نذیر کو ترجیح دے دی گئی۔
افتخار احمد ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی بغیر کچھ کیے ٹیم میں شامل ہیں حالانکہ 12 میچز میں 242 رنز کسی بھی طرح ان کی قومی ٹیم میں شمولیت کی وجہ نہیں بنتے۔ نیشنل کپ میں ان کا کردار واجبی سا تھا لیکن اپنی ٹیم کو کئی بار جارحانہ بیٹنگ سےکامیابی دلانے والے سندھ کے دانش عزیز کسی قابل نہیں سمجھے گئے۔ واضح طور پر دانش عزیز کے ساتھ زیادتی کی گئی۔
حارث سہیل کی شمولیت سمجھ سے بالاتر ہے۔ بیٹنگ میں تو وہ کوئی خاص ہاتھ نہ دکھا سکے لیکن فیلڈنگ بھی معمولی تھی جبکہ حسین طلعت اور اعظم خان کی متعدد ٹیم وننگ اننگز کے باوجود ان کو محروم کردیا گیا۔ حسین طلعت کی اضافی خوبی بولنگ بھی کام نہ آسکی۔
ٹیم میں نوجوان بلے باز عبداللہ شفیق کو محنت کا پھل مل گیا لیکن حفیظ کی موجودگی ان کی باری شاید ہی آسکے۔
بولرز میں زاہد محمود کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ وہ سپنرز میں دوسرے سب سے زیادہ وکٹ لینے والے بولر ہیں لیکن عثمان قادر کو ان پرترجیح دی گئی جن کی کارکردگی کسی کلب بولر سے بھی کم ہے۔ ایک اور باصلاحیت بولر عاکف جاوید کو نظر انداز کیا گیا۔ مناسب ہوتا کہ شاہین شاہ اور وہاب ریاض کو آرام دیا جاتا اور عاکف جاویداور عماد بٹ کو کھلایا جاتا، دونوں نے پورے ٹورنامنٹ میں عمدہ بولنگ کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹیم میں 22 کھلاڑی منتخب کیے گئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ نام تو بس آخر میں نام ہی رہ جائیں گے۔ مصباح الحق کی مسلسل مطلق العنانیت کے باعث متعدد کھلاڑی پچھلے ایک سال سے کوشش کے باوجود ٹیم میں جگہ نہیں پا سکے۔ اکثر اس امید میں تھے کہ زمبابوے کے خلاف آسان سیریز میں ان کو چانس مل جائے گا لیکن ایسا بھی ہو نہ سکا۔
ٹیم کی سلیکشن کے لیے کسی اور سلیکٹر سے مشورہ بھی نہیں کیا گیا ورنہ اعظم خان، دانش عزیز، زاہد محمود اور ذیشان اشرف کی شمولیت یقینی تھی۔ ایک کمزور سی ٹیم کے خلاف پوری قوت جھونک دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نتائج سے خوف زدہ ہیں اور پرانے کھلاڑیوں پر ہی تکیہ کر رہے ہیں۔
زمبابوے کے خلاف ہوم سیریز میں پاکستان کا سکواڈ ان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔
بابراعظم (کپتان) اور شاداب خان (نائب کپتان)
بیٹسمین: عبداللہ شفیق ، عابد علی ، فخر زمان ، حیدر علی ، حارث سہیل ، افتخار احمد ، امام الحق ، خوشدل شاہ اور محمد حفیظ
وکٹ کیپرز : محمد رضوان اور روحیل نذیر
سپنرز : عماد وسیم ، عثمان قادر اور ظفر گوہر
فاسٹ باؤلر:فہیم اشرف ، حارث رؤف ، محمد حسنین ، موسیٰ خان ، شاہین شاہ اور وہاب ریاض۔