حیض ایک ایسا موضوع ہے جس پر لکھنا بہت بھاری پڑتا ہے۔ آرٹیکل چھپتے ہی طرح طرح کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔ اس پر کیوں لکھا؟ کیا اب یہ باتیں اس طرح پبلک فورمز پر ہوں گی؟ آپ کو کیسی آزادی چاہیے؟ اگلے بلاگ میں اپنے حیض کی تاریخ بھی بتا دینا۔ ابھی تمہاری عمر کیا ہے، چلو مانا موضوع اہم ہے پر اپنی عمر دیکھو، جوان ہو، شرم نہیں آتی، چالیس، پچاس کی ہو جاؤ تب اس پر لکھنا۔
لوگ جتنی بھی باتیں کر لیں، ہم اس موضوع پر لکھنا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ اس موضوع سے جڑی شرم کی قیمت عورتوں کو مختلف بیماریوں کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے اور ہمیں یہ بالکل منظور نہیں۔ یوں تو حیض سے متعلق درجنوں موضوعات ہیں جن پر لکھا جا سکتا ہے پر ہم یہاں سینیٹری پیڈز اور ان کی خرید و فروخت سے جڑی شرم پر بات کریں گے۔
شہری علاقوں میں عورتیں حیض یا ماہواری کے دوران سینیٹری نیپکن یا پیڈ کا استعمال کرتی ہیں۔ جو خواتین پیڈز نہیں خرید سکتیں وہ اس کی جگہ کپڑے کا استعمال کرتی ہیں۔ جو پیڈز خرید سکتی ہیں، ان کے لیے یہ خریداری بہت بڑا مسئلہ ہے۔ دکاندار پیڈز کو دکان کے کونے میں چھپا کر رکھتے ہیں۔ کوئی عورت ان کا مطالبہ کرے تو پوری دکان میں ایک عجیب سی خاموشی چھا جاتی ہے، دکان دار چپکے سے ’اس‘ کونے میں جاتا ہے اور جو بھی پیکٹ ہاتھ لگے، لے آتا ہے، پھر اسے بھورے کاغذ میں لپیٹ کر گاہک کو دیتا ہے۔ یہ پورا عمل اتنی عجلت اور رازداری سے ہو رہا ہوتا ہے کہ عورت اپنی مرضی کا برانڈ یا پیڈ بھی نہیں چُن پاتی۔
بڑے بڑے مالز میں اپنی مرضی کا برانڈ یا پیڈ خریدنے کی آزادی تو ہوتی ہے پر خریدنے کے بعد اس ’آزادی‘ کو بھورے لفافے یا پلاسٹک کی کالے رنگ کی تھیلی میں خود ہی لپیٹنا پڑتا ہے۔ بہت سی خواتین اس کے خلاف احتجاج کرتی ہیں۔ ایسی خواتین پیڈز کو لہراتے ہوئے گھر لے جانا نہیں چاہتیں بلکہ وہ ان کی خرید و فروخت ایک عام شے کی طرح ہوتا دیکھنا چاہتی ہیں تاکہ انہیں یا کسی اور عورت کو پیڈز کی خریداری سے جڑی شرم کی وجہ سے کسی بڑے مسئلے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پچھلے دنوں کراچی میں ایک میڈیکل سٹور نے ایک خاتون کو صرف اس لیے پیڈز دینے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس میں وہ پیڈز کو چھپا کر خاتون کو دے سکتے۔
خاتون کا نام ارم تصور کر لیں۔ ارم دفتر جانے کے لیے ٹیکسی کا استعمال کرتی ہیں۔ اس دن بھی وہ ٹیکسی میں دفتر جا رہی تھیں۔ گھر سے تھوڑا دور جانے کے بعد انہیں یاد آیا کہ وہ پیڈز گھر بھول آئی ہیں۔ کچھ گھنٹے تک انہیں ایک نئے پیڈ کی ضرورت پڑنے والی تھی۔ گھر واپس جانا وقت اور پیسوں کو ضائع کرنے کے برابر تھا۔ انہوں نے ٹیکسی والے کو قریبی میڈیکل سٹور پر رکنے کا کہا تاکہ وہاں سے پیڈز خرید کر اپنا وقت اور پیسے دونوں بچا سکیں۔
میڈیکل سٹور کے کاؤنٹر پر تین آدمی موجود تھے۔ انہوں نے ایک سے پوچھا، ’سینیٹری نیپکن ہیں؟‘ آدمی گھبرا گیا۔ انہیں جواب دینے کی بجائے اس نے اپنے ساتھی کا بازو پکڑا اور اسے ایک طرف لے جا کر کچھ بات کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد واپس کاؤنٹر پر آیا اور ان سے پوچھا کہ وہ کیا مانگ رہی تھیں۔ ارم نے کہا پیڈز ہیں؟ ساتھ کچھ برانڈز کے نام بھی بتا دیے تاکہ ’پیڈز‘ سے بھی نہ سمجھ آئے تو برانڈز کے نام سے ہی سمجھ آ جائے۔
دکان دار نے ایک پرچی ان کے سامنے رکھی اور کہا، ’بولیں نہیں، لکھ دیں۔‘ ارم کو غصہ تو بہت آیا پر کیا کرتیں۔ ایک تو ضرورت، دوسرا ٹیکسی باہر کھڑی تھی جس کا کرایہ ہر گزرتے منٹ کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا۔ ارم نے پرچی پر پیڈز اور ساتھ کچھ برانڈز کے نام لکھ دیے۔ دکان دار نے پرچی پکڑی اور دکان کے کونے میں گھس گیا۔
تھوڑی دیر بعد وہاں سے نمودار ہوا تو اس کے ہاتھ میں پیڈز کا پیکٹ تھا۔ ارم اپنے بٹوے سے پیسے نکالنے لگیں۔ انہیں لگا اب تک دکان دار پیڈز پیک کر چکا ہو گا، پر وہ تو کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ ارم نے پوچھا تو پتہ چلا وہ کالا شاپر ڈھونڈ رہا ہے تاکہ پیڈز اس میں ڈال کر انہیں دے سکے۔ ارم نے کہا، ’آپ مجھے ایسے ہی دے دیں۔ میں اپنے بیگ میں رکھ لیتی ہوں۔‘
دکان دار نے کہا، ’ایسے کیسے دے دیں جی؟ آپ ایسا کریں کہیں اور سے خرید لیں۔‘ جیسے پیڈ نہ ہوئے پیڈ شریف ہو گئے جن کا بس ایسے ہے دے دیا جانا ان کی شان کے خلاف ہو۔
ارم پر اس وقت کیا بیتی، یہ وہی جانتی ہیں یا ان جیسی دیگر عورتیں جو اس قسم کی ایمرجنسی میں اپنے ہی پیسوں سے اپنی مدد نہیں کر پاتیں کیونکہ پیڈز کی خرید و فروخت کسی آتشیں ہتھیار کی خرید و فروخت سے بھی زیادہ خطرناک کام ہے۔