کیا آپ کا کوئی دوست یا قریبی عزیز ایسا ہے جو ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہو، ہاں میں اپنی شادی پر جہیز لوں گا؟ اگر ہے تو اس کی قدر کریں۔ آج کے دور میں ایسے سچے لوگ کم ہی ملتے ہیں۔
ایسے بہت ہیں جو شادی سے پہلے ’جہیز ایک لعنت ہے‘ پر لمبے چوڑے لیکچر دیتے ہیں اور شادی کے دن جہیز کا ٹرک اپنی نگرانی میں ان لوڈ کرواتے ہیں۔ ایسے لوگ جن گھروں میں رہتے ہیں وہ ان کے دادا یا ابا جی کا ہوتا ہے۔ ان کا اس گھر میں بس ایک کمرا ہوتا ہے جس میں یہ اپنی بیوی کو لے آتے ہیں۔
بیوی اپنے ساتھ کمرے کا سامان تو لاتی ہی ہے، ساتھ ہی ساتھ ڈرائنگ روم، لاؤنج اور باورچی خانے کا سامان بھی لاتی ہے۔ جہیز وہ لاتی ہے، عزت ان کی بن جاتی ہے۔ یہ بیوی کے لائے بیڈ پر سوتے ہیں، اس کی لائی پلیٹ میں کھانا کھاتے ہیں، اس کے لائے گلاس میں پانی پیتے ہیں اور اس کی لائے صوفے پر بیٹھ کر اسے باتیں سناتے ہیں۔
اس بے چاری کو جہیز لانے کا کیا فائدہ ہوا؟ اسے تو لاکھوں روپے خرچ کر کے بھی عزت نہ ملی۔ ہمارے معاشرے میں شادی کرنا ویسے ہی ایک مشکل کام ہے، جہیز اکٹھا کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ مڈل کلاسیے تو بیٹی کے پیدا ہونے کا سنتے ہی جہیز کی فہرست بنا لیتے ہیں۔ بیٹی کے لیے پیمپر خریدنے جائیں تو ڈنر سیٹ یا ٹی سیٹ بھی خرید لاتے ہیں۔ بیٹی کے جوان ہونے تک یہ آدھی سے زیادہ فہرست خرید چکے ہوتے ہیں۔
ان گھروں کے سٹور میں لوہے کی پیٹیاں رکھی ہوتی ہیں جس میں یہ سارا جہیز جمع ہو رہا ہوتا ہے۔ بیٹی کا رشتہ طے ہوتے ہی ان پیٹیوں کو کھولا جاتا ہے اور ان میں موجود چیزوں کا حساب کیا جاتا ہے۔ اس وقت یہ سامان اس گھرانے کے لیے کسی خزانے سے کم نہیں ہوتا ورنہ سوچیں سب کچھ اسی وقت خریدنا پڑے تو ان کا کیا بنے۔ اس وقت انہیں جو مناسب لگتا ہے خرید کر اس سامان میں شامل کر دیتے ہیں اور بیٹی کے جانے سے پہلے اس کا جہیز اس کی سسرال پہنچا دیتے ہیں۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ جس لڑکی کے ساتھ جتنا جہیز جاتا ہے اس کی اتنی ہی عزت کی جاتی ہے۔ ہاں، یہ عزت کب تک کی جائے گی یہ سسرال والوں پر منحصر ہے۔ دل کیا تو مرتے دم تک عزت کریں گے ورنہ گھر لاتے ہی بات سنا دیں گے۔ جن کے ساتھ جہیز نہیں جا پاتا یا کم جاتا ہے، ان کی داستانیں ہم اور آپ اخباروں میں پڑھتے ہیں۔ ایسی عورتیں یا تو چولہا پھٹنے سے مر جاتی ہے یا سیڑھیوں سے پھسل کر گر جاتی ہیں یا گھر سے نکالی جاتی ہیں یا کسی گولی کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ جو اس قدر انتہا پسند نہیں ہوتے وہ بیوی کو کسی بھی فرمائش پر ’باپ کے گھر سے لے آنا تھا نا‘ کہتے پائے جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہیز کے معاملے میں فرمائشی پروگرام تو اب نہیں چلتا لیکن ’ہم تھوڑی مانگ رہے ہیں، یہ تو خود اپنی بیٹی کو دے رہے ہیں‘ کے نام پر جہیز بے حد خوشی سے وصول کیا جاتا ہے یعنی جہیز ایک لعنت ہے، پر دے دیں تو کیا ہی بات ہے۔ اسی بہانے ہمارے گھر کا فرنیچر بھی تبدیل ہو جائے گا۔
دنیا میں کئی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں جہیز لڑکی والے نہیں بلکہ لڑکے والے دیتے ہیں۔ افریقہ میں یہ چلن عام ہے، چین میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ لڑکی والے اپنی مرضی کا جہیز مانگ سکتے ہیں جو لڑکے کو دینا پڑتا ہے۔ لڑکی والوں کی مرضی ہے کہ وہ یہ جہیز اپنی بیٹی کو دے دیں یا اپنے پاس ہی رکھ لیں۔ نوجوان نسل اس رسم کو غلط تصور کرتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ جہیز نہیں بلکہ ان کی قیمت ہے۔
ہمارے ہاں الٹا رواج ہے۔ لڑکی والے بیٹی تو دیتے ہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ جہیز بھی دیتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کی بیٹی کو سسرال میں عزت نہیں ملتی، جہاں ملتی ہے وہاں اسے احسان سمجھ کر وصول کیا جاتا ہے۔
لڑکے والے جہاں بیٹی کی عزت کم ہوتی دیکھتے ہیں وہیں تحفے تحائف لے کر پہنچ جاتے ہیں کبھی شبِ برات کے نام پر تو کبھی عید کے نام پر تو کبھی بس یونہی کہ بیٹی کا معاملہ ہے، کرنا پڑتا ہے، پھر بھی ان کی بیٹی کو ویسی عزت نہیں ملتی جیسی ملنی چاہیے۔
کیوں؟ اس پر کبھی سوچیں، شاید آپ کو جواب مل جائے اور پھر آپ واقعی جہیز مخالف بن جائیں۔