خیبر پختونخوا حکومت کے محکمہ برائے امور نوجوانان نے ایک ایسے پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے جس میں کتابیں گاڑیوں میں لائبریری کی طرز پر سجائی گئی ہیں اور کوئی بھی شخص بارعایت ان کتابوں کو خرید سکتا ہے۔
’بکس آن ویلز‘ نامی اس پراجیکٹ کا باقاعدہ افتتاح وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے رواں ہفتے کیا۔
ان موبائل لائبریریز نے شہر کی یونیورسٹیوں میں جانا بھی شروع کردیا ہے۔ ہمارا پشاور کی اقرا یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا تو اس لائبریری کو وہاں کھڑا دیکھا۔ کچھ طلبہ کتابیں خرید رہے تھے جبکہ دیگر اس کو دیکھنے کے لیے موجود تھے۔
محکمہ نوجوانان کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عمران اللہ جو اس موقع پر موجود تھے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پہلے مرحلے میں دو موبائل گاڑیاں تیار کی گئی ہیں جو پشاور کی مختلف یونیورسٹیوں میں جائیں گی۔
انہوں نے بتایا: ’پہلے مرحلے میں ہم نے کوشش کی ہے کہ پشاور کے تعلیمی اداروں تک رسائی ممکن بنائی جاسکے جبکہ دوسرے مرحلے میں ہمارا ارادہ ہے کہ اسے دیگر اضلاع تک پھیلایا جائے۔‘
اس پراجیکٹ کے مقصد کے بارے میں جب عمران سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا: ’ہمارے نوجوانوں میں کتابیں پڑھنے کا رجحان بالکل ختم ہونے والا ہے۔ اس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد کتابیں پڑھنے کا شوق دوبارہ پروان چڑھانا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران نے بتایا: ’یہ کتابیں ہم 10 سے لے کر 40 فیصد تک کی رعایت پر دے رہے ہیں جس میں تاریخ، سیاست، بین الااقوامی امور کی کتابوں سے لے کر اردو، انگلش اور پشتو ادب کی کتابیں بھی شامل ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس پراجیکٹ کے لیے حکومت نے نیشنل بک فاؤنڈیشن سے کتابیں خریدی ہیں اور اس کی کوشش ہے کہ اگلے مرحلے میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سمیت دیگر اداروں سے بارعایت کتابیں خرید کر طلبہ تک کم قیمت پر پہنچائیں۔
طلبہ بھی اس پراجیکٹ سے خوش نظر آرہے ہیں۔ موبائل گاڑی کے ساتھ کھڑے اقرا یونیورسٹی کے طالب علم نعیم الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہاں صدر میں کتابوں کی ایک مارکیٹ ہے، جو کم قیمت کتابوں کے لیے مشہور ہے لیکن موبائل لائبریری میں کتابیں اس سے بھی کم قیمت پر دستیاب ہیں۔
نعیم نے بتایا: ’صدر کی کتابوں کی مارکیٹ میں جو کتاب دو ہزار روپے تک دستیاب ہے، وہ یہاں ایک ہزار سے لے کر 1500 روپے تک میں مل سکتی ہے۔ اس سے طلبہ کو فائدہ ہوگا اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ پراجیکٹ اسی طرح بحال رہے۔‘