پاکستان کی عالمی شہرت یافتہ ہدایت کارہ مہرین جبار نے پاکستانی ٹیلی ویژن اور سینما کے لیے متعدد ڈرامے اور فلمیں تخلیق کرنے کے بعد اب ڈیجیٹل دور میں بھی قدم رکھا ہے۔
انہوں نے ذی فائیو گلوبل کے پلیٹ فارم کے لیے خصوصی طور پر ان کی پہلی ویب سیریز ’ایک جھوٹی لو سٹوری‘ بنائی ہے جسے عمیرہ احمد نے قلم بند کیا ہے۔ اس ویب سیریز میں مدیحہ امام اور بلال عباس مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔
مہرین جبار نے امریکہ جانے سے پہلے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنی اس پہلی ویب سیریز کے بارے میں بتایا کہ ’یہ ویب سیریز ایک ’سوشل کامیڈی‘ ہے اور اس کا موضوع سوشل میڈیا کے دور میں محبت اور ہمارا رشتہ کلچر ہے۔‘
’سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے خاندانوں پر اپنے بچوں کی شادی کا دباؤ ہوتا ہے، کس طرح غیر حقیقی توقعات وابستہ کی جاتی ہیں۔ یہ بہت ہی مزیدار اور موجودہ دور سے مناسبت رکھنے والی کہانی ہے۔‘
پاکستانی ڈراموں پر کافی نکتہ چینی کی جا رہی ہے کہ یہ صرف شادی بیاہ جیسے موضوع کے بھنور میں پھنس کر رہ گئے ہیں، تو پھر مہرین جبار نے ویب سیریز بناتے ہوئے بھی اسی موضوع کو کیوں چنا، اس بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کی یہ ویب سیریز ’بہت ہی مزیدار‘ انداز میں بنائی گئی ہے جس میں رشتہ کلچر کا ’مذاق‘ اڑایا گیا ہے۔
مہرین جبار کے مطابق ’عمیرہ احمد کی لکھی ہوئی یہ کہانی یعنی ایک جھوٹی لو سٹوری کے کردار بہت حقیقی انداز میں زندگی سے قریب تر دکھائے گئے ہیں اور یہ روایتی ڈراموں کے میلو ڈرامائی انداز سے دور ہیں۔‘
اس ویب سیریز کی مرکزی اداکارہ مدیحہ امام اس سے پہلے بالی وڈ میں منیشا کوئیرالا کے ساتھ ایک فلم ’ڈئیر مایا‘ میں کام کرچکی ہیں، مدیحہ امام کو سیریز میں کاسٹ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے ہدایت کارہ مہرین جبار نے کہا کہ اس پوری سیریز میں جسے بھی رکھا گیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ کردار پر پورا اترتا تھا، اس کے علاوہ کسی دوسری چیز پر توجہ نہیں دی گئی۔
مہرین جبار نے امید ظاہر کی کہ یہ ویب سیریز پاکستان اور بھارت کے درمیان محبت کا پیغام بن سکے گی۔
یاد رہے کہ پاکستانی اداکاروں کا بالی وڈ میں کام کرنے کا سلسلہ اڑی حملے کے بعد رک گیا تھا اور پلوامہ حملے کے بعد پاکستان میں بالی وڈ پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
مہرین جبار نے کہا کہ ذی فائیو کی جانب سے پاکستانی شوز کو جو پلیٹ فارم دیا گیا ہے وہ بہت ضروری تھا کیونکہ بھارت میں پاکستان کے بارے میں معلومات بہت کم ہیں۔
’یہ ضروری ہے کہ ہمارا ہمسایہ ملک یہاں کی کہانیاں، یہاں کے اداکار اور یہاں کا کام دیکھے کیونکہ پاکستان میں تو انڈین فلمیں دیکھی جاتی ہیں اور موسیقی سنی جاتی ہے۔‘
ویب سیریز کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ سینسرشپ نہ ہونے کی وجہ سے یہ بولڈ اور گلمیرس ہوتی ہیں، جبکہ ٹریلر سے ایسا نظر نہیں آرہا، اس ضمن میں مہرین جبار کا کہنا تھا کہ ویب سیریز بھی ایک کہانی ہی ہے جیسے دوسری کہانیاں ہیں صرف اس کا میڈیم مختلف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر نیٹ فلکس اور ایمازون کو بھی دیکھا جائے تو صرف ایک ہی طرح کا مواد نہیں چل رہا اس لیے وہ سمجھتی ہیں کہ ویب سیریز میں مختلف النوع موضوعات پر چیزیں ہونی چاہیں۔
پاکستان میں ان دنوں جاری سینسرشپ اور پیمرا کی جانب سے آئے دن کچھ نہ کچھ بند کرنے پر مہرین جبار کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہر ملک میں ایک سینسر بورڈ ہوتا ہے لیکن انہیں اپنا کام ذمہ داری سے کرنا چاہیے اور ہر چیز پر پابندی لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پابندی صرف اس صورت میں لگائی جاسکتی ہے اگر کسی کے مذہب کے خلاف کوئی بات کی گئی ہو یا کسی کے خلاف تشدد پر اکسایا جا رہا ہو، تاہم پاکستان میں پابندی لگائی بھی جاتی ہے اور پھر وہ پابندی ختم بھی ہوجاتی ہے اس لیے پیمرا شاید خود بھی الجھن کا شکار ہے۔‘
مہرین جبار نے کہا کہ ان کے خیال میں پاکستان کا اپنا ڈیجیٹل پلیٹ فارم نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں ابھی ڈیجیٹل میڈیا تک رسائی بڑھانے کی ضرورت ہے جس کے بعد اگلے پانچ سال میں اس پر مزید کام ہوگا، تاوقت کہ ابھی چند چھوٹے چھوٹے پلیٹ فارمز پر کام تو ہو رہا ہے۔
پاکستان میں فلم یا ڈرامہ بنانے میں درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر فلم بندی لوگوں کے گھروں میں ہوتی ہے کیونکہ سٹوڈیوز نہیں ہیں اس لیے جہاں اس ملک میں بہت کام ہورہا ہے وہیں کافی زیادہ بہتری کی ضرورت بھی ہے۔
مہرین جبار نے آخر میں حکومت کی جانب سے متوقع فلم پالیسی کے بارے میں کہا کہ اس وقت حکومت کی جانب سے مراعات کی ضرورت ہے جن میں ٹیکس میں چھوٹ اور خاص نئے اور سستے، کم قیمت ٹکٹ والے سینما گھروں کی تعمیر کے لیے مراعات دینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ صنعت اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے۔