میں نے خاندانی شجرۂ نسب میں ملالہ کا نام لکھ دیا: ضیاء الدین یوسفزئی

مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ نے اپنی بیٹی کی تربیت کے لیے کیا خاص کیا ہے؟ تو میں انہیں کہتا ہوں ’یہ نہ کہو بلکہ یہ پوچھو کہ میں نے کیا نہیں کیا۔ اور وہ یہ کہ میں نے اس کے پر نہیں کاٹے۔‘

ملالہ اپنے والد کے ہمراہ (روئٹرز)

نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاء الدین یوسفزئی ایک ماہر تعلیم، انسانی حقوق کے علمبردار اور استاد ہیں۔ انہوں نے لوئس کار پینٹر کے ساتھ مل کر 2018 میں انگریزی میں لٹ ہر فلائی Let Her Fly کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جسے دنیا بھر میں پذیرائی ملی اور مختلف زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ بھی کیا گیا۔

حالیہ دنوں ان کا اردو زبان میں ترجمہ ہوا جس کا عنوان ہے ’اسے پرواز کرنے دو‘ اس کے مترجم فضل ربی راہی ہیں جن کا تعلق سوات سے ہے۔ یہ ادب اور صحافت سے خاصے دلچسپی رکھتے ہیں اور خیبر پختونخوا منگورہ سوات میں شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز کے نام سے ایک ادارہ بھی چلا رہے جس کے ذریعے اس اردو ترجمہ کتاب ’اسے پرواز کرنے دو‘ کو شائع کیا گیا ہے۔

اس کتاب کے ترجمہ پر کتنا وقت لگا اور اس کے بارے میں مزید کچھ جاننے کے لیے انڈیپنڈنٹ اردو نے مترجم فضل ربی راہی سے بات کی جو آخر میں پیش کی جائے گی لیکن اس سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ضیاء الدین یوسفزئی کی اس کتاب سے قبل ان کی بیٹی ملالہ یوسفزئی بھی ’میں ہوں ملالہ‘ کے عنوان سے کتاب لکھ چکی ہیں۔

اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک کتاب یوسفزئی خاندان پر شائع ہوچکی تھی تو اس دوسری کتاب کو لکھنے کا کیا مقصد ہے اور اس میں ایسا نیا کیا ہے؟ یہ اور اس سے جڑے مختلف سوالات کے جوابات جاننے کے لیے انڈیپنڈنٹ اردو نے ضیاء الدین یوسفزئی سے تفصیلی گفتگو کی جو سوال اور جواب کی شکل میں درج ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پہلا سوال: آپ کے خاندان کی زندگی پر پہلے بھی ایک کتاب ’میں ہوں ملالہ‘ کے عنوان سے شائع ہو چکی ہے۔ تو پھر آپ کی کتاب ’اسے پرواز کرنے دو‘ میں ایسا نیا کیا ہے جو اس سے مختلف ہو؟

پہلی جو کتاب تھی اس میں بنیادی طور پر ہمارے خاندان کی کہانی ہے لیکن چونکہ وہ ملالہ کی کتاب ہے تو انہی کے بارے میں تھی، لیکن کچھ چیزیں میری زندگی میں ایسی تھیں جو اس کتاب میں شائع نہیں ہوئی تھیں۔ وجہ یہ کہ وہ میری کتاب نہیں تھی۔ اب اس کتاب میں میری اپنی زندگی ایک بچے، بیٹے، بھائی، شوہر، باپ اور ایک استاد کی حثیت سے جو مختلف میرے کردار ہیں جیسا کہ سب کے ہوتے ہیں تو میں نے یہ سفر کیسے طے کیا۔ اس کی کہانی ہے۔

میں اور تورپکئی ہم ایک پدرانہ خاندانوں یا معاشرے میں پیدا ہوئے تھے، اور اہم بات یہ کہ کس طرح ہم دونوں نے ایک ایسے خاندان کی تشکیل کی جو صنفی برابری پر یقین رکھتے ہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایک گھر ایسا ادارہ ہوتا ہے جس میں سب کے یکساں حقوق ہوتے ہیں۔ دوسرا میرے بیٹوں کے حوالے سے اس کتاب میں وہ تمام مشکلات کا ذکر ہے جو برطانیہ آنے کی وجہ سے پیش آئی تھیں یہی وجہ ہے کہ ’اسے پرواز کرنے دو‘ میری زندگی کی کہانیوں کا زیادہ احاطہ کرتی ہے۔

اسے پرواز کرنے دو اردو ترجمہ سے قبل ’لیٹ ہر فلائی‘ کے عنوان سے انگریزی میں شائع ہوئی تھی تو اس بارے میں کیا ردِ عمل آیا تھا اور کتنی کاپیاں فروخت ہوئی تھی؟

مجھے صحیح یاد نہیں لیکن انگریزی میں شائع ہونے والی کتاب ہزاروں کے تعداد میں بک چکی ہے اور اب بھی بک رہی ہے۔ اس کا کئی ممالک میں کوئی سات مختلف اہم زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ اسے کئی اداروں اور سکولوں میں بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں چاہتا تھا کہ یہ اردو اور پشتو میں بھی شائع ہوجائے، کیونکہ جب باقی زبانوں میں ترجمہ ہوا تو میرے خیال سے اپنی زبان کا حق پہلے آتا ہے تو اسے ہم نے اردو میں بھی اب شائع کیا ہے۔ ظاہر ہے اردو پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے تو میری کہانی میرے اپنے ہم وطن بھی پڑھ سکیں۔

تیسرا سوال: آپ ایک پختون گھرانے میں پیدا ہوئے جہاں عورت کو چار دیواری میں رکھا جاتا ہے، لیکن آپ کو یہ خیال کیسے آیا کہ میں نے جہالت دور کرنی ہے اور اپنی بچی کو تعلیم دلوانی ہے؟

یقیناً میں جس معاشرے اور گھر میں پیدا ہوا ہوں وہ ایک روایتی معاشرہ ہے اور وہاں ایک پدر شاہی نظام ہے۔ مختصرا وہ ایک مردانہ معاشرہ ہے جہاں سارا کا سارا اختیار مردوں کے پاس ہے۔ میں نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ ہمارا زیادہ خیال رکھا جاتا تھا، مطلب کھانا اچھا دیا جاتا تھا، اگر مرغی بنی ہے تو اس گوشت کے بہتر حصے ہمیں دیے جاتے تھے، کپڑے بہتر ملتے تھے، گھر میں کوئی اچھی چیز بنی ہے تو وہ بھی پہلے ہمیں دی جاتی تھی کیونکہ ہم مرد تھے۔

سب سے بڑی تفریق یہ تھی کہ مجھے تعلیم کا موقع ملا مگر میری بہنیں سکول سے محروم رہیں۔ اس میں میرے والدین زیادہ قصوروار اس لیے نہیں تھے کیونکہ اس زمانے میں لڑکیوں کے سکول نہ صرف بہت محدود تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے جس کی ذمہ دار حکومت تھی جو ایک پدر شاہی حکومت تھی۔

اب بھی وہی رویہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو لڑکوں کی تعلیم کو دی جاتی ہے۔ چونکہ میں بچپن سے یہ صنفی امتیاز دیکھ رہا تھا اور میں مزاجاً ہر قسم کے ظلم ناانصافی کے خلاف رہا ہوں۔ بچپن میں اگر میرے ساتھ میری سانولی رنگت، زبان کی ہکلاہٹ یا غربت کی وجہ سے ناروا سلوک کیا گیا تو مجھے بہت تکلیف پہنچتی تھی۔ لیکن میں ہمیشہ ایک لفظ استعمال کرتا ہوں ’مثبت انتقام‘ یعنی آپ اس برائی کے خلاف اٹھیں بجائے اس کے کہ آپ کو کوئی قبول نہ کرے تو آپ اس کو قبول نہ کریں۔

آپ سے کوئی نفرت کرے تو آپ اس سے یا پھر آپ کے ساتھ کوئی برا سلوک کرے تو آپ بھی برا رویہ اپنائیں۔‘ لہٰذا میں اس برائی کے خلاف کھڑا ہوا جس کی وجہ سے میری طرح کے کئی اور بھی بچے پریشان تھے۔

پھر جب میں نے دیکھا کہ لڑکیوں کے ساتھ تو بہت امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے تو اس زمانے میں جب میری شادی بھی نہیں ہوئی تھی اور عمر تقریباً 18 یا 19 سال ہو گی تب میں نے (لوظ) یعنی وعدہ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی جو بعد میں 2000 میں میری پشتو کتاب ’خومینہ تل ژوندی وی‘ میں شائع ہوئی تھی۔ میں نے اس میں عہد کیا تھا کہ میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم، آزادی، اور ان کے حقوق کے لیے کھڑا رہوں گا اور ان کا ساتھ دوں گا۔

پھر دوسرا جب ملالہ پیدا ہوئی تو میں نے سوچا تھا کہ یہ اس نسبت سے نہ پہنچانی جائے کہ یہ فلاں کی بیٹی، بہن یا بیوی ہے بلکہ اس کا اپنا نام اور اپنا حوالہ ہو۔ جیسے میوند کی ملالئی تھی اور یہ نام بھی اسی سے متاثر ہو کر رکھا تھا۔

پھر چند دنوں بعد جب میرا ایک کزن ہمارا شجرۂ نسب لے آیا تو اس میں سارے مردوں کے نام تھے تو میں نے قلم سے اپنے نام سے ایک لکیر کھینچی اور نیچے ملالہ کا نام لکھ دیا۔ جس پر وہ حیران ہوا کہ کیسا عجیب بندہ ہے جو یہاں لڑکی کا نام لکھ رہا ہے۔

اب جب مذاق میں میرا بیٹا اتل یوسفزئی کہتا ہے کہ ’آپ کی کتاب کا نام Let Them Fly کیوں نہیں؟ ہم بھی اڑنا چاہتے ہیں،‘ تو میں انہیں بتاتا ہوں کہ ’آپ صدیوں سے اڑ رہے ہیں۔‘ اس سے مراد ہر لڑکی کا یہ حق ہے کہ اس کے پر نہ کاٹے جائیں تاکہ وہ اپنے خوابوں کو پورا کر سکے، چاہے وہ کسی بھی شعبے میں جانا چاہے، جیسے تعلیم، صحت، صحافت، سیاست، یا فنون لطیفہ وغیرہ۔

مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ نے اپنی بیٹی کی ترتیب کے لیے کیا خاص کیا ہے؟ تو میں انہیں کہتا ہوں ’یہ نہ کہو بلکہ یہ پوچھو کہ میں نے کیا نہیں کیا۔ اور وہ یہ کہ میں نے اس کے پر نہیں کاٹے۔‘

باقی جن لوگوں سے میں متاثر ہوا ان میں سب سے پہلے ملالئی میوند، فاطمہ جناح، بےنظیر بھٹو، عاصمہ جہانگیر اور پاکستان کی دوسری بہادر خواتین کے بارے جب میں سنتا تھا تو مجھے لگتا تھا کوئی بھی لڑکی کچھ بھی کر سکتی ہے اور زندگی میں آگے جا سکتی ہے۔

پھر میں کتابوں میں جن خواتین کے بارے میں پڑھتا تھا جو مایہ ناز ہیں جیسے این فرنک جن کے خاندان پر نازی جرمنی کے ہاتھوں بہت تکلیف پہنچی تھی جس پر انہوں نے ایک ڈائری لکھی تھی۔ روزا پارک جو کہ امریکن ہیں جو مارٹن لوتھر کنگ کے زمانے میں نسلی امتیاز کے خلاف چلنے والی تحریک کا حصہ تھیں۔

اس کے علاوہ مدر ٹریزا ہو گئی۔ اور پھر ظاہر ہے میں نے اسلامی تاریخ سے بھی حضرت خدیجہ، اور حضرت عائشہ جیسی فعال، نمایاں اور طاقتور خواتین کے بارے میں پڑھا تھا اور یہی لوگ میرا حوصلہ تھے کہ عورت بھی وہ کچھ بلکہ اس سے زیادہ بھی کر سکتی ہے جو مرد کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں آپ کی ہمت اور بہادری کو سراہا جاتا ہے مگر پاکستان میں آپ کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ آپ لوگ تو مغرب کے ہو گئے اور واپس بھی نہیں آئیں گے لہٰذا آپ کے مکمل طور پر پاکستان واپس آنے کے کیا ارادے ہیں؟

دنیا بھر میں ملالہ کو جو پذیرائی ملی یا اب مل رہی ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے جاپان سے لیکر امریکہ تک اور آسٹریلیا سے افریقہ تک حتیٰ کہ مشرق وسطیٰ میں بھی ملالہ کے بارے میں سکولوں، کالجوں اور جامعات میں پڑھایا جاتا ہے۔ آپ ترکی، فرانس، جاپان یا کہیں بھی جائیں اور وہاں پوچھیں کہ ملالہ کون ہے تو متوقع جواب یہ ہو گا کہ ملالہ وہ لڑکی ہےجو عورتوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہے، بالخصوص تعلیم کے لیے جو ایک اہم وجہ ہے جس پر انہیں پذیرائی ملتی ہے۔

رہی اپنے وطن عزیز کی بات تو وہ ایک مثل مشہور ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے۔ یقینا پاکستان میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو ہمیں پسند نہیں کرتے یا ہماری آئیڈیالوجی سے نفرت کرتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو صرف لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف نہیں بلکہ خواتین کی آزادی اور خودمختاری کے بھی دشمن ہیں۔

یہ لوگ درحقیقت امن کے مخالف ہیں تو ایسے لوگوں سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ہماری مخالفت کریں گے اور تنقید بھی کریں گے۔ ان لوگوں کی کمزوری یہ کہ ہم جن اقدار کے لیے کھڑے ہیں وہ اتنے سچے، بڑے اور مضبوط ہیں کہ اس کی مخالفت کوئی کھل کر نہیں کر سکتا تو جب ان کے پاس اس حوالے سے دلیل نہیں ہوتی تو وہ بجائے مدلل بات کرنے کے ہم پر مغرب کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں اور بے بنیاد دشنام طرازیاں کرتے ہیں جس سے ہمیں فرق نہیں پڑتا۔

باقی پاکستان ہم پہلے بھی آئے ہیں اور دوبارہ بھی آئیں گے۔ وہ ہمارا اپنا وطن ہے ہمارا تو اس سال بھی پاکستان آنے کا ارادہ تھا مگر کرونا کی وبا کے سبب سفر کرنا اور لوگوں سے ملنا مشکل ہے۔ لہٰذا جس ملک میں ہمارے ماں باپ دادا پر دادا صدیوں سے رہتے آرہے ہیں وہ ملک ہم کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ اسی زمین سے ہم اٹھے ہیں اسی دھرتی میں واپس جانا ہے۔

ہم پہلے بھی پاکستان میں تعلیم پر کام ک ررہے تھے۔ میں بطور استاد تعلیم ہی تو دے رہا تھا لیکن طالبان نے جس بچی کو خاموش کرنے کی کوشش اللہ نے اسے ایسا موقع دیا کہ اب وہی کام دنیا بھر کے لیے کررہی۔ اور انشاء اللہ واپس آ کر بھی یہی کام جاری رکھیں گے تاکہ جہالت کے اندھیرے تعلیم کی شمع سے مٹ جائیں۔

اس وقت یقیناً پاکستان کو ملالہ کی ضروت ہے کیونکہ نائجیریا کے بعد پاکستان دوسرا بڑا ملک ہے جہاں تقریباً دو کروڑ 30 لاکھ کے قریب بچے بچیاں سکول سے باہر ہیں۔ ہمارا خواب ہے کہ ہر لڑکی کو کم از کم 12 سال تک مفت، معیاری اور محفوظ تعلیم حاصل ہو۔

جس طرح ملالہ اکثر کہتی ہے کہ میں چاہتی ہوں کہ میں اپنی زندگی میں یہ دیکھوں کہ کوئی بھی لڑکی سکول سے باہر نہ ہو۔ لہٰذا سوات میں میں ایک چھوٹا سا اپنی برادری کا لیڈر تھا تو وہ میرا ساتھ دے رہی تھی۔ اب وہ بین الاقوامی سطح پر ایک رہنما ہے اور ان کے جو کروڑوں سپورٹر ہیں ان میں ایک میں بھی شامل ہوں۔

’اسے پرواز کرنے دو‘ کے مترجم فضل ربی راہی نے انڈپینڈنٹ اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایک زبان سے کسی دوسری زبان میں ترجمہ مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔ دونوں زبانوں پر عبور ‏رکھنے کے علاوہ یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ جس زبان میں اس کا ترجمہ کیا جا رہا ہے، اس کے قارئین کس فطری مزاج اور سماجی اقدار کے حامل ‏ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ اپنی تنگ نظری اور تعصب کی وجہ سے رائی کا پہاڑ بنا لیتے ہیں، اس لیے کچھ چیزوں کو ترجمہ کرتے وقت ‏زیادہ احتیاط کرنی پڑتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ضیاء الدین یوسفزئی کی کتاب کا ترجمہ میں نے دراصل کرونا کے لاک ڈاؤن کے دوران کیا ہے۔ اُس وقت میرے پاس فارغ وقت تھا اور میں ‏نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کتاب کا ترجمہ کیا۔ ترجمے کے بعد اس پر دوبارہ نظر ڈالنا، زبان و بیان کو درست کرنا اور اس کی ‏نوک پلک سنوارنا، اس تمام تر عمل میں چار پانچ مہینے لگ گئے۔‘

فضل ربی راہی کہتے ہیں کہ ’میں اس کتاب کے قارئین کو یہ مشورہ دوں گا کہ وہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ہر طرح کے تعصب کو ذہن سے جھٹک دیں، اس کتاب میں ‏ظاہر کیے گئے خیالات پر مثبت انداز میں غور و فکر کریں تو انھیں اس میں یقیناً کچھ ایسا نظر آئے گا جس سے وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کے ‏لیے نئی توانائی اور جذبہ محسوس کر سکیں گے۔ یہ کتاب غور و فکر کی ترغیب دیتی ہے، عملی زندگی میں آگے بڑھنے کا جذبہ فزوں تر کرتی ہے اور ‏ماں، بیٹی اور بہن کے بارے میں ہمارے معاشرے میں رائج غلط رسوم اور روایات بدلنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔‘

(تصاویر بشکریہ ضیاء الدین یوسفزئی)

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان