شمالی سندھ کے ضلع کشمور کی پولیس کے مطابق نوکری کا جھانسہ دے کر کراچی سے کشمور لانے کے بعد خاتون اور ان کی چار سالہ بیٹی کے ساتھ گینگ ریپ کرنے والے گروہ کے مرکزی ملزم محمد رفیق ملک کو گرفتار کرکےتین روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔
کشمور تھانے کے اے ایس آئی محمد ابراہیم اوگاہی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'واقعے کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں اغوا، ریپ اور دیگر الزامات کے تحت درج کیا گیا تھا، مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ کیس میں نامزد دیگر دو ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔'
اے ایس آئی محمد ابراہیم کے مطابق: 'کراچی کی رہائشی ایک خاتون کی کچھ روز قبل کراچی کے جناح ہسپتال میں ملزم محمد رفیق ملک سے ملاقات ہوئی اور ملزم نے کہا کہ وہ انہیں کشمور کے قریب ایک فوجی چھاؤنی میں خواتین کی تلاشی لینے کی ایک نوکری دلوا سکتے ہیں، جہاں انہیں 40 ہزار تنخواہ ملے گی۔'
محمد ابراہیم اوگاہی کے مطابق: 'اس ملاقات کے بعد مذکورہ خاتون نے اپنی چار سالہ بیٹی کے ساتھ ملزم کے ساتھ کشمور تک سفر کیا، جہاں ملزم نے پہلے تو خاتون سے ریپ کیا اور بعد میں انہیں 30 ہزار روپے کے عوض ایک اور ملزم کو بیچ دیا جبکہ خریدنے والے نے دو دن تک ریپ کرنے کے بعد انہیں کرایہ دے کر کراچی جانے کا کہا۔'
اے ایس آئی نے مزید بتایا کہ 'ملزم محمد رفیق ملک نے بچی کو اپنی تحویل میں رکھا ہوا تھا جہاں تین دن تک وہ ایک اور ملزم کے ساتھ بچی سے گینگ ریپ کرتے رہے۔ جب پولیس نے ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا تو معلوم ہوا کہ بچی کو لحافوں کے نیچے چھپایا گیا تھا، اس کے بال کاٹے ہوئے تھے اور دانٹ بھی توڑ دیے گئے تھے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ملزم نے شرط عائد کی تھی کہ متاثرہ خاتون، کسی اور خاتون کو لا کر ان کے حوالے کریں تو تب ہی وہ ان کی بیٹی کو ان کے حوالے کریں گے۔
'جس کے بعد پولیس نے متاثرہ خاتون سے ملزم کو فون کروایا کہ دوسری خاتون آگئی ہیں، اب کہاں آنا ہے؟ اور تسلی کے لیے ہمارے اے ایس آئی محمد بخش بُرڑو نے اپنی بیٹی سے بات کروائی، جس کے بعد ملزم نے پتہ بتایا اور اس طرح گرفتاری ممکن ہوسکی۔'
علاج کے لیے بچی کے ساتھ جانے والے کشمور تھانے کے اے ایس آئی محمد بخش بُرڑو کے مطابق بچی کی طبیعت کچھ بہتر ہے۔
خاتون اور ان کی چار سالہ بیٹی کے ساتھ گینگ ریپ کے واقعے کے بعد سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاج جاری ہے جبکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس ٹوئٹر اور فیس بک کے صارفین واقعے میں ملوث دیگر ملزمان کی گرفتاری کے ساتھ انصاف کی اپیل کر رہے ہیں۔
دوسری جانب سماجی رہنماؤں نے خدشہ طاہر کیا ہے کہ پولیس اس گینگ ریپ کیس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی اور امکان ہے کہ متاثرہ خاتون اور ان کی چار سالہ بچی سے انصاف نہیں ہوسکے گا۔
کشمور کے وکیل اور سماجی رہنما مصطفیٰ آکاش ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: 'کشمور ایک قبائلی ضلع ہے جہاں پر عدالتوں کی بجائے جرگوں میں فیصلے کیے جاتے ہیں اور ہمیں خدشہ ہے کہ اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ پولیس دو دن گزرنے کے باوجود دیگر ملزمان کو گرفتار نہیں کرسکی ہے، اس واقعے کے پیچھے کوئی گروہ بھی ہوسکتا ہے۔'
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'پولیس نے متاثرہ بچی کو بغیر ایمبولینس کے لاڑکانہ کے چانڈکا ہسپتال ریفر کیا، جس سے پولیس کی سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔'
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس کیس کے لیے اچھی ساکھ رکھنے والے پولیس افسران پر مشتمل جوڈیشل انکوائری کروائی جائے اور دیگر ملزمان کو گرفتار کرکے متاثرہ خاتون اور ان کی بچی کو انصاف دلایا جائے۔
کشمور شمالی سندھ کا ضلع ہے، جس کی سرحدیں پنجاب اور بلوچستان سے ملتی ہیں۔ ضلع کشمور کا مکمل نام کشمور ایٹ کندھ کوٹ ہے اور ضلعی صدر مقام کندھ کوٹ شہر میں ہے۔ ماضی میں کشمور ضلع میں مختلف قبیلوں کے درمیان جھگڑے اور ایک قبیلے کا دوسرے قبیلوں کے لوگوں کو قتل کردینا عام بات سمجھی جاتی تھی۔