امریکہ کے نومنتحب صدر جو بائیڈن کے سیاسی تجربے پر طائرانہ نظر ڈالنے والا کوئی بھی غیرجانبدار شخص دو ٹوک الفاظ میں ان کے ’اچھے‘ امریکی صدر ہونے کی پیش گوئی کرتا دکھائی دیتا ہے۔
نصف صدی سے بائیڈن ایک مستقل مزاج سیاست دان کے طور پر جدوجہد میں مصروف ہیں۔ سیاست میں ان کا نقطہ نظر ہمیشہ عملیت پسندی سے عبارت رہا ہے۔ بائیڈن بین الاقوامی سیاست کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔
سیاسی زندگی میں چھ مرتبہ امریکی سینیٹ کے رکن بنے۔ ہر ٹرم چھ برس پر محیط تھی۔ بائیڈن، امریکہ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ خارجہ کمیٹی، امریکہ کے بیرون دنیا بالخصوص مشرق وسطیٰ سے تعلقات سے متعلق پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
امریکی صدر جارج بش کی 1989 میں صدارت کے بعد جو بائیڈن ایک انتہائی تجربہ کار اور قابل امریکی سیاست دان ہیں جو وائٹ ہاؤس کو اپنا مسکن بنانے جا رہے ہیں۔ یہ پیش رفت انتہائی اہم ہے کیونکہ عرب دنیا خطے کے اہم ملکوں کے ساتھ تعلقات جیسے گنجلک مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔
یادش بخیر! جو بائیڈن، سعودی عرب کے مرحوم شاہ عبداللہ کی تعزیت اور نئے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو تخت نشینی کی مبارک باد کے لیے 27 جنوری 2015 کو مملکت جانے والے وفد کر سربراہی کرنے والے تھے کہ عین آخری وقت پر اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما بھارت کا اپنا دورہ مختصر کر کے ریاض پہنچے۔
اوباما کے ہمراہ اس وقت سعودی عرب کے دورے پر آنے والے امریکی وفد میں شامل سیاسی طور پر بھاری بھرکم شخصیات کو دیکھ کر مملکت کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ کئی امریکی وزرا، سینیٹر جان مکین، جیمز بیکر، برنٹ سکو کرافٹ، سٹیو ہڈلے اور کونڈا لیزا رائس بھی اس سرکاری وفد میں شامل تھیں۔ یہ شخصیات ماضی کی کئی امریکی حکومتوں کی نمائندگی کر چکی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی اننگز کے خاتمے اور بائیڈن کے صدارتی انتخاب جیتنے سے متعلق غیرسرکاری نتائج کی خبروں کے بعد سعودی عرب کے مخالف ذرائع ابلاغ سے جو بیانہ پیش کیا جا رہا ہے اس کے برعکس امریکہ - سعودی تعلقات میں کشیدگی کی بجائے بہتری اور آسودگی کا عنوان ہی ہر جگہ نوشتہ دیوار ہے۔
سابق صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے وقت بھی ایسے ہی ریاض مخالف بیانیے کی ترویج شد ومد سے کی جا رہی تھی۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی شاندار تاریخ اور توقعات کے عین مطابق ٹرمپ کا دور حکومت بھی ایک اہم سنگ میل کے طور پر مکمل ہوا۔
یہاں یہ کہنا عجیب لگتا ہے کہ سعودی عرب کی خوش قسمتی ہے کہ اسے امریکہ میں اچھے صدور ملے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ریاض کی اہمیت، کردار اور ساکھ کی بنا پر تمام امریکی صدور مملکت کے ساتھ بہتر تعلقات استوار رکھنے پر مجبور تھے۔
عراقی صدر صدام حسین کے 1990 میں کویت پر حملے کے وقت صدر جارج بش کے سعودی عرب اور خطے میں اس کے دیگر برادر ملکوں کے ساتھ تعلقات انتہائی اچھے تھے۔ کویت پر عراقی تسلط کو چند عاقبت نااندیش سیاسی پنڈت فلسطین پر اسرائیلی قبضے کا نیا ایڈیشن قرار دینے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔
صدام حسین کو دھمکانے کے لیے سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی جانب سے ریاض کے لیے فوجی تعاون انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ انہوں [کلنٹن] نے بوسینا کی جنگ کے خاتمے میں سعودی عرب کو دل کھول کر تعاون پیش کیا۔ کلنٹن کے بعد جارج بش جونیئر امریکی تاریخ کے انتہائی اہم موڑ پر وائٹ ہاؤس کے مکین بنے۔ ان کے دور حکومت میں نائن الیون حملوں سے امریکہ کا امن تہہ وبالا کرنے کی کوشش کی گئی۔ بش انتظامیہ نے فیصلہ کن انداز میں 11ستمبر کے حملوں کو امریکہ - سعودی عرب تعلقات سبوتاژ کرنے والا اقدام جان کر اس کے نتائج وعواقب سے نپٹنے کی پالیسی بنائی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قرآئن بتا رہے ہیں کہ منتخب امریکی صدر جو بائیڈن گذشتہ چار برسوں کے دوران ڈیموکریٹ اور ری پبلیکن جماعتوں کے درمیان تناؤ سے ریاض - واشنگٹن تعلقات میں آنے والی دراڑ کے خاتمے کے لیے اقدامات کو اپنی حکومتی پالیسی کا اہم سنگ میل قرار دیں گے۔
اس مقصد کے لیے خارجہ امور کے ماہر نئے امریکی صدر کو دنیا کی اہم علاقائی قوتوں کا تعاون درکار ہو گا، جس میں خطے اور بالخصوص اسلامی دنیا میں استحکام کے لیے سعودی عرب کا کردار انتہائی اہم ہے۔
پیرس میں رونما ہونے والے حالیہ افسوسناک واقعات نے ثابت کر دیا کہ اس وقت اسلامی دنیا کی قیادت کے لیے اسلامی دنیا میں سعودی عرب کا کردار کیوں کر اہم ہے؟ بعض ملکوں نے جذبات کو برانگیختہ کرنے والے اقدامات اور اعلانات کے ذریعے یورپی یونین اور امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کو ناراض کیا۔
اندریں حالات امریکہ کی خارجہ پالیسی میں سعودی عرب کا کردار اور زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ بات خارج از امکان نہیں کہ جو بائیڈن بھی اپنے پیش رو کی طرح غیر ملکی دوروں کا آغاز ایک مرتبہ پھر سعودی عرب سے کر کے اسلام فوبیا کے شور میں عالم اسلام کو اعتماد سازی کا منفرد پیغام دیں۔
جو بائیڈن کی امریکی صدارتی انتخاب میں جیت کے بعد اٹھائے جانے والے شور میں یہ بے بنیاد پیش گوئی بھی شد ومد سے کی جا رہی ہے کہ پیرانہ سال صدر کے قصر سفید میں داخلے کے بعد امریکی سیاست نئے، مبہم، اہم اور امکانی طور پر خطرناک مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔
بہت سے سیاسی پنڈٹ نئی امریکی انتظامیہ کی پالسیوں میں قطعی مختلف تبدیلیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ایران سے مصالحت اور یمن میں سعودی پالیسی کی حمایت سے دست کشی اور انسانی حقوق جیسے امور پر ریاض - واشنگٹن رسہ کشی کی وارننگ دے کر کہنہ مشق امریکی سیاست دان کو جو بات سمجھانا چاہ رہے ہیں، مشرق وسطیٰ کی سیاست میں رونما ہونے والی حالیہ سیاسی اور سفارتی تبدیلیاں ان کے تجزیوں پر اوس ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایران کی جارحانہ کارروائیوں کا مقابلہ چار دہائیوں سے خلیجی ملکوں کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون چلا آ رہا ہے۔ اسی خطرے سے نپٹنے کے لیے وہ مختلف اتحاد قائم کرتے رہے ہیں۔ تاہم امریکی انتخابی نتائج سمیت خطے میں ہونے والے دوسری تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے پیشگی اقدام کے طور پر اسرائیل کے ساتھ جامع تعلقات استوار کر لیے ہیں۔ اس اتفاق کے باوجود اسرائیل اور خلیجی ممالک کے آٹے میں نمک کے برابر اختلاف برقرار ہیں۔ اسرائیل اور خلیجی ملکوں کا مشترکہ دشمن ایران ہے۔
جو بائیڈن کے قصر سفید میں داخلے کے بعد ایرانی خطرے سے نپٹنے کے لیے امریکہ اور اس کے خلیجی اتحادیوں کی کامیاب سفارت کاری سے پریشان تہران حکومت یورپی دارالحکومتوں سمیت اسلام آباد کے چکر لگا رہی ہے، لیکن ہر طرف ’نو لفٹ‘ کا بورڈ اس کا منہ چڑا رہا ہے۔