جب آپ ’اب بس‘ کو دیکھنا شروع کرتے ہیں تو تیز دھار چھری، چاقو اور پھر پستول سے مشق کرتی لڑکی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی کا قتل کرنے کی تیاری کر رہی ہو، مگر چند منٹ بعد ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس کا خوف ہے کہ وہ اکیلی کیسے ہائی وے کے سفر پر نکلے گی۔
لاہور سیالکوٹ موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ ہونے والے ریپ کے واقعے کے تناظر میں بنائی گئی مختصر دورانیے کی فلم ’اب بس‘ کو ریلیز سے لے کر اب تک ڈھائی لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھا جاچکا ہے اور پاکستان میں، جہاں اس طرح کا ڈارک کونٹینٹ عموماً نظرانداز کر دیا جاتا ہے، یہ فلم عوام کی توجہ حاصل کرتی نظر آرہی ہے۔
یاد رہے کہ نو ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب پیش آنے والے ایک واقعے کے دوران دو افراد نے مبینہ طور پر مدد کے انتظار میں سڑک کنارے کھڑی گاڑی میں سوار خاتون کو پکڑ کر قریبی کھیتوں میں ان کے بچوں کے سامنے ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔
محسن طلعت کی ہدایت کاری میں بنائی جانے والی تقریباً ساڑھے نو منٹ کی اس فلم میں مرکزی کردار صنم سعید نے ادا کیا ہے۔
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ایک چھوٹی بچی کی ماں کو اس کے گھر سے ایک فون آتا ہے کہ اس کے والد کو دل کا دورہ پڑا ہے اور وہ لاہور سے 380 کلومیٹر دور اپنے میکے جانے کے لیے بے تاب، مگر بری طرح خوفزدہ ہے اور وہ مختلف ہتھیاروں کو ساتھ لے جانے اور اپنا حلیہ بار بار بدلنے کی کوشش کرتی ہے۔
صنم سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی کوشش رہی کہ وہ کسی طرح دیکھنے والوں کو یہ سمجھا سکیں کہ اس طرح کے واقعات کا خواتین پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خدا کا شکر ہے کہ انہیں کبھی اس طرح کے خوف کا سامنا نہیں کرنا پڑا، تاہم اس کردار کو نبھانے کے لیے موٹر وے ریپ کا واقعہ ہی کافی تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کا مقصد تھا کہ لوگ خود کو خواتین کی جگہ رکھ کر سوچیں کہ ایسے واقعات معاشرے پر کتنے شدید اثرات چھوڑ کر جاتے ہیں۔
صنم سعید کہتی ہیں کہ جب ان کے سامنے اس مختصر دورانیے کی فلم کا سکرپٹ آیا تو انہوں نے اسے اپنی ذمہ داری سمجھ کر ادا کیا کیونکہ ایسے موضوعات صرف ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر ہی دکھائے جاسکتے ہیں، ٹی وی کا روایتی میڈیا تو بہت سی مصلحتوں میں جکڑا ہوا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ وہ مستقبل میں بھی ایسی فلموں میں کام کرتی رہیں گی۔
اس فلم کے ہدایتکار محسن طلعت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس مختصر دورانیے کی فلم کا مرکزی خیال مصنف شاہد ڈوگر اور اس کی ایگزیکٹو پروڈیوسر سیمی نوید کا تھا۔
محسن طلعت نے کہا کہ ’اس موضوع پر کہانی کو بُننا ذرا مشکل تھا اور بہت سے سین ایسے تھے جن میں مکالمہ نہیں تھا۔‘
صنم سعید کو مرکزی کردار میں کاسٹ کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں بہت ہی اچھی اداکارہ درکار تھیں اور ’ہمارے ہاں ایسی چند ہی اداکارائیں ہیں جو سماجی مسائل پر کام کرنا پسند کرتی ہیں اس لیے نظر انتخاب ان پر پڑی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مقصد صرف یہ تھا کہ پیغام پہنچ جائے کہ ’اب بس‘ یعنی بہت ہوگیا، اب ہر شخص کو آواز اٹھانی پڑے گی، ہر ایک کو بولنا ہوگا۔‘
محسن طلعت نے اس شارٹ فلم میں خود بھی چند سیکنڈ کا ایک رول کیا ہے جس کی وجہ انہوں نے ہنستے ہوئے بتائی کہ ’بجٹ کے مسائل تھے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ کہانی مکمل ہوئی۔‘
ان کے مطابق ان کی کوشش یہ تھی کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر لوگوں کو روکنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے انہوں نے اصل کہانی فلم کے آخری منٹ میں کھولی تھی تاکہ دیکھنے والوں کی دلچسپی برقرار رہے۔
فلم کا اختتام اس پیغام پر ہوتا ہے کہ ’اکیلی عورت موقع نہیں ذمہ داری ہوتی ہے۔‘
یاد رہے کہ سی پرائم، اشتہار سازی میں مقبول پاکستان کی نامور جوڑی نوید ارشد اور سیمی نوید، جن کے نام پر پاکستان کی پہلی فائنڈ فوٹیج فلم ’عکس بند‘ بھی ہے، کا ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہے جس کا آغاز رواں برس اگست کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی کرفیو میں رہنے والوں کے حالات پر ایک مختصر دورانیے کی فلم ’ آرٹیکل 370‘ سے کیا گیا تھا، جس پر ہر ہفتے ہی ایک نئی شارٹ فلم ریلیز کی جاتی ہے۔
ابتدا میں اسے ایک یوٹیوب چینل کی حد تک ہی رکھا گیا ہے، مگر اسے جلد ہی ایک باقاعدہ سٹریمنگ سروس میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے۔