پاکستان کی فلمی صنعت کو سب سے زیادہ سلور، گولڈن اور پلاٹینم جوبلی فلمیں دینے والے وحید مراد سے بڑا ہیرو اس ملک میں نہیں آیا، وہ کہ جن کا نام ہی سلور جوبلی کی ضمانت تھا۔
کچھ لوگ انہیں پاکستان کا چاکلیٹی ہیرو کہتے تھے اور کچھ نے انہیں ایلوس پریسلی کہا، لیکن اپنے دنیا سے جانے کے 37 برس بعد بھی وہ فلمی صنعت کا اٹوٹ انگ ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے انتقال کے بعد پیدا ہونے والی نسل بھی ان کی گرویدہ ہے۔
وحید مراد کے بچپن کے دوست جاوید علی خان کے مطابق 1961 میں وہ ان کے ساتھ منچھر جھیل پر شوٹنگ کے لیے جگہ دیکھنے گئے تھے اور واپسی پر راستہ بھٹک کر کسی اور سمت نکل گئے، ایسے میں رات بھی سر پر تھی اور گاڑی میں پیٹرول بھی کم رہ گیا تھا کہ ایک راہ گیر نے کہا کہ قریب ہی سیہون شریف ہے آپ کو وہاں مزار کے متولی سے پیٹرول مل جائے گا۔
جاوید علی خان یاد کرتے ہیں: ’جب ہم وہاں پہنچے تو رات ہوچکی تھی، سیہون میں موجود لعل شہباز قلندر کے سجادہ نشین وحید مراد کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے اور رات کو اپنے پاس ٹھہرایا اور صبح جانے سے پہلے کہا کہ آپ کو یقیناً دربار سے بلاوا آیا ہے اس لیے جانے سے پہلے یہاں دعا ضرور مانگ کر جائیں، غرض ہم دونوں نے مزار پر حاضری دی اور لعل شہباز قلندر کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔
’واپسی پر وحید نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے کیا دعا میں کیا مانگا تو میں نے کہا کہ ایم اے انگریزی میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن مانگی ہے، تو انہوں نے کہا ’میں نے مانگا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے پاکستان کا سب بڑا سٹار بنائے، میری شہرت دور تک جائے اور میرے مرنے کے بعد بھی رہے۔‘
جاوید علی خان نے کہا کہ دوںوں کی دعا قبول ہوئی، وہ فرسٹ آئے اور وحید مراد کی شہرت آج بھی برقرار ہے۔
وحید مراد بہت ہی سادہ طبیعت کہ انسان تھے اور اکثر ان کے ساتھی ان سے مذاق کیا کرتے تھے۔ ان پر فلمایا جانے والا ایک مشہور نغمہ ’یوں کھوگئے تیرے پیار میں ہم‘ مجیب عالم نے گایا تھا تاہم وحید مراد نے انہیں دیکھا نہیں تھا۔ ایک ایوارڈ تقریب میں مجیب عالم اپنی مخصوص چوڑے پائنچے کی پتلون پہنے موجود تھے تو وحید مراد انہیں دیکھے جا رہے تھے۔ موسیقار روبن گھوش نے وحید مراد سے ان کا تعارف یہ کہہ کر کروایا کہ یہ سینٹرل جیل کراچی میں پھانسیاں دیتے ہیں۔‘
سادہ طبیعت وحید مراد مجیب عالم سے پوچھنے لگے، ’جب آپ پھانسی دیتے ہیں تو کیفیت کیا ہوتی ہے؟‘
اس دن تو وحید مراد چلے گئے مگر کچھ عرصے بعد کسی اور تقریب میں مجیب عالم کو گانا گانے کے لیے بلایا گیا تو وحید مراد نے کہا کہ ’میں مجیب عالم کو دیکھنا چاہتا ہوں جس کا گایا گانا مجھ پر فلمایا گیا ہے۔‘
جب سٹیج پر انہوں نے مجیب عالم کو دیکھا تو بعد میں ان سے پوچھا کہ ’کیا آپ اب بھی پھانسیاں دیتے ہیں؟‘
وحید مراد کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ وہ اپنے صاحب زادے عادل مراد، جو لاہور کے علاقے لبرٹی میں بیکن ہاؤس سکول میں پڑھتے تھے، کو سکول سے لانے کے لیے چلے گئے اور گاڑی انہوں نے کچھ فاصلے پر کھڑی کی اور پیدل سکول کی جانب چل پڑے تو انہیں دیکھ کر وہاں لوگوں کی کثیر تعداد جمع ہو گئی۔ وہ مشکل سے سکول کے اندر پہنچے تو وہاں بھی سٹاف اور اساتذہ کے گرد جمع ہوگئے اور سکول کے اندر رش لگ گیا اور سکول کے باہر تو ٹریفک جام ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس واقعے کو یاد کرتے ان کے بیٹے عادل مراد بتاتے ہیں کہ اس کے بعد سکول کے پرنسپل نے انہیں بلاکر کہا کہ اپنے ابو سے کہنا کہ آئندہ وہ آپ کو لینے نہ آئیں اور خاص کر ’پیرنٹ ٹیچرز میٹنگ میں تو بالکل بھی نہیں۔‘
عادل مراد نے بتایا کہ وہ پہلی مرتبہ تھا جب ان کے والد انہیں سکول سے لینے آئے تھے کیونکہ وہ اکثر عکس بندی میں مصروف ہوتے تھے اس لیے ان کی والدہ ہی انہیں سکول سے لاتی لے جاتی تھیں، وہ ایک ہی بار آئے اور پابندی لگ گئی۔
اپنے انتقال سے چند ماہ قبل ہی وحید مراد نے پی ٹی وی کے مشہور ترین پروگرام سلور جوبلی میں شرکت کی تھی، سٹیج پر بیٹھتے ہی میزبان انور مقصود کو انہوں نے کہا کہ ایک سوال مت پوچھیے گا کہ آپ کی پسندیدہ ہیروئین کون سی ہے، اس پر انور مقصود نے کہا اچھا یہ بتادیں کہ ’آپ کی ناپسندیدہ ہیروئین کون سی ہیں؟‘ اس پر وحید مراد نے کہا کہ یہ تو آپ نے پہلوانوں والا داؤ کھیلا ہے ، آپ سمجھ لیں کہ ساری ہیروئین ہی مجھے پسند ہیں۔‘
معروف مصنف، میزبان انور مقصود نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس پروگرام کے بارے میں بتایا کہ وہ وحید مراد کو لینے لاہور گئے تھے۔ اس وقت وہ کافی بیمار رہنے کی وجہ سے کمزور ہو گئے تھے اور آنے کے لیے تذبذب کا شکار تھے۔ انور مقصود کے مطابق: ’میں نے ان سے کہا کہ جتنے مرضی نئے ہیرو آجائیں فلمی صنعت کو جو فلمیں آپ دے گئے ہیں ان کی مثال نہیں ملتی، آپ کی فلموں نے ایک نئی جہت متعارف کروائی ہے، بہرحال وہ پھر میرے ساتھ بذریعہ ہوائی جہاز کراچی آئے اور پروگرام ریکارڈ کروایا۔‘
انور مقصود بتاتے ہیں: ’انور میری ان سے بچپن سے دوستی تھی، وہ بہت اچھی کرکٹ کھیلا کرتے تھے، اٹیک اوپن کروایا کرتے تھے، اچھے بولر تھے، انگریزی موسیقی سننے کا شوق تھا اور انگریزی کتابیں ہی پڑھا کرتے تھے۔‘
یاد رہے کہ وحید مراد نے کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی تھے۔
انور مقصود نے کہا کہ ان کی برسی پر وہ کہنا چاہتے ہیں کہ ’بھارت میں دلیپ کمار اور پاکستان میں وحید مراد جیس طرح گانا فلمایا کرتے تھے ویسا پھر کبھی کوئی اور نہیں آیا۔‘
آخر میں انور مقصود نے کہا کہ ان کے لیے میرؔ کا یہ مصرع ضرور لکھیے گا کہ
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
اداکار منور سعید نے وحید مراد کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا یہاں تک کہ ان کی آخری فلم ’ہیرو‘ میں بھی وہ ان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جن دنوں ’ہیرو‘ کی عکس بندی کی جارہی تھی انہیں دنوں وحید مراد کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا جس سے ان کے چہرے پر بھی چوٹ آئی تھی اور وہ بعد ازاں علاج کے لیے کراچی آئے تھے جہاں سے انہیں لندن روانہ ہونا تھا کیونکہ ابھی فلم کا کچھ کام باقی تھا، تاہم کراچی ہی میں ان کا انتقال ہوگیا۔
جاوید علی خان بتاتے ہیں کہ ان کے والد پان دان رکھا کرتے تھے اور پان کھاتے رہتے تھے اور ان کے گھر بہت زیادہ آمد و رفت کی وجہ سے وحید مراد کو پان کھانے کی عادت لگ گئی تھی۔
وحید مراد کے کئی دوستوں نے بتایا ہے کہ وہ کراچی میں پی آئی ڈی سی کے علاقے کا پان کھاتے تھے اور جب ان کا انتقال ہوا اس وقت بھی ان کے منہ میں پان کا بیڑا ہی تھا۔