پاکستان کے صوبے خیبر پختوونخوا میں واقع وادی تیراہ کا شمار پاکستان کے خوبصورت ترین علاقوں میں ہوتا ہے لیکن علاقہ غیر میں ہونے اور کئی سالوں سے شدت پسندی سے متاثر ہونے کی وجہ سے یہاں نہ تو ترقی آ سکی اور نہ ہی سیاحت کو فروغ ملا۔
تیراہ کی آبادی کے اعدادوشمار بھی صحیح طور پر معلوم نہیں کیونکہ یہاں کبھی حکومتی رٹ قائم ہی نہیں ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے۔
2007 میں دو مذہبی شدت پسند تنظیموں کی آپس کی لڑائیوں میں تیراہ کے لوگوں کا بہت نقصان ہوا۔ شدت پسندوں نے درجنوں گھروں کو جلایا جبکہ ان سے نمٹنے کے لیے جب فوجی آپریشن ہوا تو اس کے دوران بھی درجنوں گھر تباہ ہوئے۔
شدت پسندی کی وجہ سے تیراہ کے زیادہ تر رہائشی اپنے گھر بار چھوڑ کر دیگر علاقوں میں آباد ہوئے۔ زیادہ تر لوگوں نے ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ اور تحصیل جمرود میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ پناہ لی۔
اب جب دس سال بعد کئی لوگ تیراہ واپس آئیں ہیں تو دیکھ رہے ہیں کہ اب کے گھر کھنڈرات میں بدل گئے ہیں۔ ان لوگوں میں سے ایک مالدار بی بی بھی ہیں جن کے گھر کے کئی کمرے تباہ ہوگئے ہیں اور وہ اب بھی حکومتی امداد کی منتظر ہیں۔
اپنے گھر کی باقیات کے درمیان کھڑی وہ بتاتی ہیں: ’ہم بھوکے پیاسے کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ یقین کریں کہ کوئی آسرا نہیں، تھکی ماندی بوڑھی عورت ہوں۔ کوئی شے نہیں گھر میں، پتہ نہیں کیا کریں۔ لاچار اور بے بس ہوں۔ کاش کچھ تو مل جائے اس لیے گھر سے نکلتی ہوں۔ ابھی تک کچھ نہیں ملا ہے۔‘
مالدار بی بی کی زندگی بالکل ان کے نام کے برعکس ہے۔ وہ غربت میں زندگی گزار رہی ہیں۔ ’میرے گھر کے تین چار کمرے خاکستر ہوگئے، میرے شوہر اور اور بھی مر گئے ہیں۔ ان کے بچے بے آسرا رہ گئے ہیں۔ ایک بیٹا دیہاڑی کر رہا ہے اور بس اسی پر گزارہ کر رہے ہیں۔‘
قیصر خان مالدار بی بی کے ہمسایہ ہیں۔ وہ اور ان کے خاندان والے تیراہ واپس آئے تو ان کے گھر مکمل طور پر جل گئے تھے۔ جو گھر جنگ میں گولہ باری سے بچے ہیں ان کو کئی سالوں کی ژالہ باری، برف باری اور جاڑے نے بھی نقصان پہنچایا۔
قیصر خان کہتے ہیں: ’طالبان یہاں آگئے اور انہوں نے ان گھروں کو جلا دیا۔ ہم اپنے گھروں کی ایک منزل ایک سال کے عرصہ میں تعمیر کرتے ہیں۔ پہلے ہم گارا لگاتے ہیں اور پھر اس کے خشک ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر اسی طرح گارے کا دوسرا اور تیسرا پھیرا کرتے ہیں۔ یہ سیمنٹ کی طرح نہیں کہ بس اینٹ کے اوپر اینٹ لگا لیں اور پھر پندرہ دن کے اندر اندر گھر بن جائے گا۔‘
تباہی کا سروے
وادی تیراہ میں اب بھی کئی ایک ایسے علاقے ہیں جہاں مقامی لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں۔ راجگل انہی علاقوں میں سے ایک ہے۔ راجگل کے رہائشی ضلع خیبر اور پشاور میں رشتہ داروں یا کرائے کے مکانات میں رہائش پذیر ہیں۔
مہربان کلے تیراہ کے مکمل تباہ شدہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کسی زمانے میں وادی تیراہ کی مشہور مسجد اور بازار ہوا کرتا تھا جو کہ اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔
حکومت نے تیراہ کے رہائشیوں کو تباہ شدہ مکانات کا معاوضہ ادا کرنے کے لیے سروے شروع کیا ہے۔
ملک جانباز خان مہربان کلے کے رہائشی اور سربراہ ہیں۔ وہ اپنے گاؤں سے نقل مکانی کر کے ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں رہائش پذیر ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ مہربان کلے کی سروے ٹیم کے رکن بھی ہیں اور دیگر لوگوں کی طرح سروے سے خوش نہیں۔ انہوں نے کہا: ’مہربان کلے میں افواج کے ساتھ ہماری پہلی ملاقات میں ہم نے یہی بات بتائی تھی کہ آپ لوگ ہمارے گھر میں نفاق پیدا کررہے ہیں، اس رقم سے ہمارے خاندان میں کبھی اتفاق آ سکتا۔ ہمارا جایئنٹ فیملی سسٹم ہیں۔ ایک چاردیواری کے اندر چار یا پانچ کمرے ہوتے ہیں جس میں چار پانچ بھائی رہتے ہیں اس کے لیے چاروں کے سروے ہونی چاہیے۔ چار لاکھ روپے تیراہ میں مکانات بنانے کے لیے بہت کم ہے۔ اس میں ایک لیٹرین بھی نہیں بن سکتا۔‘
دس سال سے زائد عرصہ اپنے علاقے سے دور رہ کر اگرچہ وادی تیراہ کے رہائشیوں میں سے چند ایک نے پشاور اور دیگر ضم شدہ علاقوں میں اپنے مکانات بھی بنا لیے لیکن وہ تیراہ واپس جانے کے خواہش مند ہیں۔
ملک جانباز نے انڈپنڈننٹ اردو کو بتایا: ’میں نے جمرود میں لاکھوں روپے خرچ کر کے گھر بنایا ہے لیکن میں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا ہے کہ یہ میرا اپنا گھر ہے۔ میرا تو وہی گھر جہاں میں نے اپنا بچپن گزارا ہے۔ بچپن والا گھر کون بھول سکتا ہے؟‘
ریکنسٹرکشن اینڈ ری ہیبیلیٹیشن پراجیکٹ کے پراجیکٹ مینیجر سے انڈپنڈننٹ اردو نے معلومات لینے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے بات کرنے سے معذرت کی۔ سروے سے جڑے ذرائع سے معلوم ہوا کہ ضلع خیبر میں کل 13892 مکانات کا سروے ہوا ہے جس میں 7214 مکمل تباہ شدہ مکانات ہیں اور باقی نیم تباہ شدہ ہیں۔
ان میں سے 9191 مکانات کی تعمیر کے لیے 274 کروڑ سے زائد رقم دی جا چکی ہے جس میں سے مکمل تباہ شدہ مکانات کے 5323 مالکان 212 کروڑ سے زائد روپے دیے جا چکے ہیں۔
تاہم اب بھی مالدار بی بی اور قیصر خان جیسے کئی اور تیراہ کے رہائشی اپنے ویران مکانات واپس بنانے کے منتظر ہیں۔