رمضان کے بعد عید ملنے اور عیدی اکٹھی کرنے کے بعد اکثر پاکستانی چھٹیاں منانے سیاحتی مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی دیکھا گیا کہ سیاح زیادہ اور تفریحی مقامات اور سہولتیں کم پڑ گئیں۔ اس کا ایک حل گذشتہ برس خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے اضلاع ہیں۔ یہ ’ان ایکسپلورڈ‘ علاقے اس کمی کو پورا کرنے میں زبردست کردار ادا کرسکتے ہیں۔
انہیں میں ایک مقام پاڑہ چنار بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں کا گورنر ہاؤس کاٹیج اس سلسلے میں کافی معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ برطانوی راج میں گورنر کے قیام کے لیے بنی یہ عمارت سو سال سے زیادہ پرانی ہے۔ حکومتی اعلی شخصیات کے زیر استعمال رہنے کی وجہ سے اچھی حالت میں بھی ہے۔ اردگرد وسیع سرسبز پر باغ ہیں۔ اونچے درخت ہیں جو مختلف اوقات میں اہم شخصیات جیسے کہ پولیٹکل ایجنٹس اور گورنروں نے لگائے تھے۔ مجھے سب سے قدآور چنار اس وقت کے گورنر ابراہیم اسماعیل چندریگر نے 1952 میں لگایا تھا۔ تختی اور تناور درخت دونوں موجود ہیں۔
اپر کرم ضلع کا صدر مقام پاڑہ چنار کا نام انہیں چنار کے درختوں کی وجہ سے پڑا۔ روایت ہے کہ ان درختوں کے سائے میں بیٹھ کر یہاں کے مشران، بڑے بوڑھے جرگوں میں مسائل حل کرتے تھے۔
اس کاٹیج میں بھی شدت پسندی کی لہر کے دوران فوج تعینات تھی۔ اب جا چکی ہے لیکن ایک کمرے کی سائڈ ٹیبل کے کونے میں ٹیلیکام کے نمبر ان کی ماضی کی موجوگی کا واحد ثبوت باقی ہے۔ مالی گھاس کاٹنے اور ناکارہ راکٹوں اور میزائلوں سے بنے گملوں کی دیکھ بھال میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ عمارت اور اس طرح کے کئی دیگر تاریخی مقامات میں سیاحت کو بڑھانے کا کافی امکان موجود ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت جو اس صوبے میں ایجنڈا لے کر آئی اور دیگر اضلاع میں سرکاری عمارتیں سیاحوں کے لیے کھول دی گئیں تو امید ہے کہ اس کاٹیج کو بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جانے لگے گا۔
اس کی دو بڑی وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاڑہ چنار سیاحتی مقام بن پائے گا یا نہیں۔ یہ انتہائی دلکش علاقہ ہے جس کے چاروں اطراف برف پوش پہاڑیاں ہیں، ہرا بھرا علاقہ اور موسم کے اعتبار سے بھی موافق۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے پوسٹروں میں اس خطے کو سیاحتی مقام بنانے کا وعدہ واضح طور پر درج ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے نتیجے میں حکمراں اس پر عمل درآمد کتنا جلد کرتے ہیں۔