پاکستان کے قبائلی اضلاع کو خیبرپختونخوا کا حصہ بنے دوسال ہوچکے ہیں۔
عدالت اورپولیس کے ساتھ تمام ادارے ان علاقوں میں کرسی میز لگاچکے، انگریز کے نافذ کردہ کالے قانون کے نام سے بدنام ایف سی آررخصت ہوچکا، قبائلی عوام کے نمائندے خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں لیکن یہ کیا؟
ایک بار پھروہی حالات پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں جن سے جان چھڑانے کے لیے یہ اتنی لمبی ایکسرسائز کی گئی تھی۔ جنوبی وزیرستان سے کرم، اورکزئی، مومند اورباجوڑ ہرجگہ قانونی اداروں کے ذریعے معاملے کو حل کرنے کی بجائے وہی ایف سی آر کے دنوں میں ہونے والی لشکرکشیوں کے ذریعے مخالفین کے گھروں کی مسماریوں کانہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
حالیہ لشکرکشیاں:
رواں سال مئی کے شروع میں لشکرکشی کے دوران اکاخیل قبیلے کے دوافراد کے مرنے کے بعد حالات کشیدہ ہوئے تھے۔ دونوں افراد کی موت کو زمین کی ملکیت ہی کا تنازع قراردیا گیا ہے۔
اسی طرح کرم کے قبائلی ضلع میں بھی جولائی ہی کی شروع میں زمین کی ملکیت کے تنازعے پر دو متحارب قبیلوں بالش خیل اورپاڑہ چمکنی کے لشکروں کے مابین کئی دن تک لڑائی ہوئی اوردس لوگ ہلاک اورپینتیس سے زائدزخمی ہوئے۔
غالبا دس جولائی کا دن تھا جب جنوبی وزیرستان میں انگوراڈہ کے قریب مسلح قبائلی لشکر نے احمد زئی وزیرقبائل کی ذیلی شاخ زالی خیل کے تین افراد کے گھروں کو مسمارکردیا۔
اس کارروائی میں محمد رحمن، گل نواز اورعبدالرشید کے قلعہ نما گھروں کو لشکر نے کارروائی کرکے مسمارکیا جن پر الزام تھا کہ انہوں نے حکومت اورزالی خیل کے مابین کسٹم ٹرمینل کے قیام کے معاملے پرہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔
اسی طرح رواں ماہ کی غالبا چھ تاریخ تھی جب مومند ایجنسی میں صافی قبائیل نے مامد گٹ کے مقام پر متنازع اراضی پربننے والے دو گھروں کو لشکرکشی کرکے مسمار کیا جس کے دوران مخالفین کی فائرنگ سے تین افراد زخمی بھی ہوئے۔
جبکہ انہی دنوں میں ضلع باجوڑ کے تھانہ خار کی حدود میں لشکرکشی کے دوران فائرنگ سے دوافراد ہلاک بھی ہوئے۔
انضمام کے بعد لشکرکشی کا کوئی جواز؟
انضمام سے پہلے سابقہ فاٹا میں انگریز کا متعارف کیا ہوا قوانین کا مجموعہ ایف سی آرنافذ تھا جس کے نفاذ کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ پختونوں سے انگریز کے مفاد کو کسی بھی متوقع نقصان کا راستہ روکا جاسکے۔
اگر کوئی ایسا کر بھی جاتا تو انہی قوانین میں اجتماعی ذمے داری کے قانون کے تحت ملزم کا پورا قبیلہ جواب دہ ہوتا تھا اوراگرقبیلہ بھی اجتماعی ذمے داری کو پورا نہ کرتا تو پھر ان کے خلاف گھروں کی مسماری کے لیے لشکرکشی بھی شامل تھی۔
تاہم انضمام کے بعد پولیس اورعدالت کے ان علاقوں میں آنے کے بعد اب یہاں پر کسی بھی جرم کے ملزمان کے ساتھ وہی سلوک ہوناچاہیے جو باقی پاکستان میں ہوتا ہے۔
تاہم حیرت کا مقام ہے کہ فاٹا کے صوبے کے ساتھ انضمام کے باوجود لشکرکشیوں کا سلسلہ جاری ہے جس نے ان شکوک کو جنم دیا ہے کہ یا تو عام لوگ بھی انضمام کے ثمرات نہ ملنے یا اس عمل میں مسلسل تاخیر سے انتہائی پریشان ہیں اس لیے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے لگے ہیں یا شاید وہ لوگ جو فاٹا کی حیثیت بدلنے سے خوش نہیں تھے وہ اس کے خلاف سازش کررہے ہیں۔
سابقہ فاٹا اوراس کا صوبے کے ساتھ انضمام:
24مئی 2018 کو پاکستان کی قومی اسمبلی اوراگلے ہی دن سینٹ آف پاکستان نے فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی منظوری دی جس کے بعد اسے حتمی منظوری کے لیے تین دن بعد یعنی 27مئی کو خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں پیش کیا گیا جہاں یہ اکثریت سے منظورہوگیا اوریوں 31مئی کو فاٹا خیبرپختونخوا کا حصہ بن گیا۔
اس سے پہلے افغانستان سے متصل ستائیس ہزاردو سو بیس کلومیٹر رقبے پرقائم ان سات قبائلی ایجنسیوں باجوڑ، مومند، خیبر، اورکزئی، کرم، شمالی اورجنوبی وزیرستان سمیت چھ فرنٹیئرریجنز پرمشتمل اس علاقے کو فرنٹیئرکرائمز ریگولیشنز کے نام سے قوانین کے ایک سیٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا تھا اورصدرپاکستان اسے گورنرکے ذریعے چلاتا تھا۔ ان علاقوں کی آبادی کے حوالے سے مختلف آرا ہیں۔
انضمام کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی میں سابق فاٹا سے سولہ جنرل سیٹس، چارمخصوص نشستوں پر خواتین اوراقلیتوں کے لیے ایک نشست ملی۔ یوں اسمبلی میں اراکین کی تعداد ایک سو چوبیس سے ایک سو پینتالیس ہوگئی۔
حاجی شاہ جی گل آفریدی سابق ایم این اے حلقہ این اے 45 کے مطابق 'ایف سی آرکے جس نظام کو ختم کیا گیا اس میں انتظامیہ سے زیادہ کردارقبائلی عمائدین یعنی مشران یا ملکان کا ہوتا تھا اورجب عمائدین کو کمزورکیا گیا تو دہشت گردی آئی اب جب ایف سی آر کو ختم کیا گیا تو خلا کو پرکرنے کے لیے فوری طورپر بلدیاتی انتخابات ہونے چاہیئے تھے تاکہ ہرگلی اورمحلے کے لوگ آگے آئیں اورلوگوں کے مسئلے حل ہوں۔'
'بلدیاتی انتخابات ہوتے تو یہ لشکرکشیاں نہ ہوتیں۔ اصل میں امن آنے کے بعد جو لوگ باہرکے شہروں میں رہتے تھے وہ بھی واپس لوٹ آئے اوراپنے علاقوں میں زمینوں کی خریداریاں شروع کردیں جس کے ساتھ ہی ان علاقوں میں زمینوں کی قیمتیں بڑھ گئیں اورزمینوں کے معاملے پر تنازعات بہت بڑھ گئے۔'
' باجوڑ کی لشکرکشی کو چھوڑ کر اگر آپ مومند، اورکزئی، کرم اورجنوبی وزیرستان کی لشکرکشیوں کو دیکھیں گے تو ان سب کی بنیاد زمینوں کے تنازعات پرتھے۔ جن لوگوں نے زمینوں کی خریداریاں کیں انضمام کی ثمرات سے مایوس ہونے والے عام لوگ ان سے توقعات وابستہ کرکے ان کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے کہ شاید یہاں سے کچھ فائدہ مل سکے۔'
'ترقیاتی کاموں اورانفراسٹرکچر کے لیے پچیسویں آئینی ترمیم کے تحت ان علاقوں کو جو پیسے دیے جانے تھے وہ نہیں ملے۔تولوگوں کی امیدیں دم توڑنے لگیں وہ مایوس ہونے لگے لیکن اس کے باوجود وہ اس قابل نہ تھے کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے۔ انضمام کا عمل اگر پوری طرح مکمل کیا جائے تو ان قبائلی علاقوں میں بعض خاصیتوں کی وجہ سے بدامنی کبھی لوٹ کرنہیں آسکتی جن میں سب سے پہلے پاک افغان بارڈر پرخاردارتاروں کی تنصیب ہے اب وہاں سے دخل اندازی کے امکانات کافی کم ہوچکے ہیں سیکورٹی فورسزبھی چاہتی ہیں کہ اب مقامی لوگ کسی کو ریاست مخالف تنظیمیں نہ بنانے دیں اورویسے بھی ان علاقوں میں باہر کے لوگ آکر رہتے بھی نہیں جس کی وجہ سے سارے لوگ مقامی ہیں اورسب ایک دوسرے کو جانتے ہیں ایسے میں سٹریٹ کرائمز سمیت دیگر جرائم کا ہونا بھی کوئی امکان نہیں رکھتا۔ '
'البتہ اگر حکومتیں انضمام کے لیے حسب وعدہ فنڈز فراہم کرکے بلدیاتی انتخابات کراتیں، این ایف سی ایوارڈ کے تحت پیسے ملتے تو محکمے مضبوط ہوتے قبائلی نوجوانوں کو نوکریاں ملتیں تو لوگوں کو بہتری کی توقعات ہوتیں ماحول پراس کے بہتر اثرات پڑتے۔ '
شہاب الدین خان، سابق ایم این اے حلقہ این اے سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'باربارکہہ رہا ہوں کہ اختیارات کا تعین نہ ہونے سے افراتفری پھیل رہی ہے خلا بن چکا ہے پولیس کی ابھی اتنی استعداد نہیں ہے کہ حالات قابو کرسکے کچھ پولیس فورس تربیت لینے گئی ہے کچھ کو قانون کا پتہ نہیں کہ کہاں پرکون سا قانون نافذ کرنا ہے۔ مراعات یافتہ ملکان نے بھی لوگوں کو اشتعال دلایا اورجنازے اٹھنے کے ساتھ ہی لوگ اکٹھے ہوئے اورملزمان کے گھروں کو آگ لگا دی لشکرمیں موجود سب لوگ غیرمسلح تھے اورجب گھروں کے اندر سے فائرنگ ہوئی تو لشکر میں دو لوگ مرگئے جس کے بعد ڈی سی اورڈی پی اوآئے اورملکان کے ارادے ناکام بنائے گئے۔ ضلع مومند میں بھی ایسے ہی مسائل اٹھے ہیں لگتا ہے کہ کوئی چاہتا ہے کہ یہ مسئلے سراٹھائیں حالانکہ اب تو گھروں کو جلانے کا ایک پوراقانون موجود ہے۔'
شمس مومند،قبائلی صحافی و مصنف کا کہنا ہے کہ 'انضمام کا فائدہ نہ ہونے کی بڑی وجہ عجلت میں اس کا کیا جانا ہے اس عمل کے لیے سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی کا مقررکردہ طریقہ کار بھی اختیار نہیں کیا گیا جس میں یہ باتیں طے تھیں کہ کب اورکتنے عرصے میں کون کون سا کام کرنا ہوگا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'ایک طرف قبائلی عمائدین اپنا اختیاراوررعب ودبدبہ چھوڑنے کو تیارنہ تھے تو دوسری جانب عام لوگ بھی بہت ساری باتوں خصوصا پولیس اورعدالتوں کے نظام میں چلنے کے لیے تیار نہ تھے اس کے علاوہ ملک اورصوبوں میں جو حکومتیں آئیں وہ اپنا اپنا کام کرنے کے لیے بھی پوری طرح فعال اورمستحکم نہ تھے تو قبائلی علاقے کو کیسے ساتھ لےکر چلتے؟ '
'اس کے علاوہ سابقہ نظام میں پولیٹیکل ایجنٹ اوران کے ماتحت لوگ بڑے پیمانے پر کرپشن کے عادی ہوچکے تھے ان کے پاس بے تحاشا اختیارات ہوتے تھے۔ '
'بہت بڑی تعداد میں بھوت ملازمین ہوتے تھے جن کی تنخواہیں آتی تھیں اوران کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہوتا تھایہ سب بھی اپنا اختیارچھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ اس وقت ڈی سی اورضلعی پولیس افسر کے مابین اختیارات کی جنگ چل رہی ہے ادارے بھی تقسیم ہوگئے پولیٹیکل ایجنٹ کو ڈپٹی کمشنربنادیاگیا۔'
'نظام کی ان کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مومند، باجوڑ اورہرسابقہ ایجنسی میں لشکرکشیاں ہوئیں جن کے پیچھے ایسی قوتیں ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ بعض دیگرلوگوں کے اشاروں پر بھی چلتی ہیں بلکہ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ اس میں ایک اہم یورپی ملک کا سفارتخانہ بھی عمل دخل رکھتا ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرسکے۔'