سامنے دیوار پر لگی گھڑی پر نظر پڑی تو نومبر کے تیسرے ہفتے کی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کا ڈیڑھ بجنے کو تھا اور میں قرنطینہ میں ہونے کی وجہ سے گھر کی بالائی منزل میں اکیلا تھا کیونکہ میں نے سختی کے ساتھ گھر کے تمام افراد پر پابندی لگا دی تھی کہ جب تک میں کرونا سے مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوتا تب تک کسی نے بھی گھر کے اوپر والے حصے میں نہیں آنا۔
سو بغیر کسی نرمی کے ان ایس او پیز پر عملدرآمد ہو رہا تھا جس نے ہمیں ایک اجنبی اور ناپسند حالات سے وقتی طور پر اور شدید مجبوری کے تحت ہی سہی لیکن متعارف بحر حال کروا تو دیا تھا۔
صورتحال اچانک منفی سمت میں تبدیل ہو چکی تھی اور مجھے رات کے اس پہر اپنی تنہائی اور بے بسی کے ساتھ ہی مشکل ترین حالات کا سامنا تھا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اٹھ کر کمرے کا نیم کھلا دروازہ بند کر دیا تاکہ کھانسی کی آواز نیچے گھر میں نہ سنی جا سکے۔
عقبی گیراج کی طرف کھلنے والی کھڑکی کا شیشہ سرکایا کیونکہ میں حد درجہ ناہموار اور بے ترتیب ہونے والی سانسوں کے لیے کسی نامعلوم اور غیبی مدد کی تلاش میں تھا لیکن وہ بے بخت اور بے ثمر رات مجھے کیا مدد فراہم کرتی جو خود ایک مہیب تاریکی اور بے رحم دھند کی لپیٹ میں تھی۔
البتہ اپنی یخ بستگی اور برفیلی ہوا کے سفاکانہ جھونکوں سے میری کھانسی کی شدت میں مزید اضافہ کر گئی سو میں نے جلد ہی کھڑکی بند کر دی اور ایک بے بسی کے ساتھ خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنا شروع کیا لیکن پلٹ کر لمحہ بھر کو گزری زندگی کی سمت دیکھا تو نہ ہی کوئی احساس جرم تعاقب میں تھا نہ ہی کوئی پچھتاوا کسی نئے سفر سے ڈرا رہا تھا کیونکہ نہ تو کھبی کسی حق بات سے پیچھے ہٹا تھا نہ ہی کسی کا ناجائز حق کھایا تھا، محنت اور کامیابیوں کا تناسب بھی قابل اطمینان تھا۔ سو مشکل لمحوں میں پہلی بار خود پر پیار بھی آیا اور فخر بھی محسوس کیا۔
تکلیف بڑھتی جا رہی تھی لیکن خوفزدہ ہرگز نہ تھا البتہ بے چینی کے سبب کھبی ٹیک لگاتا تو کھبی چھوٹے سے کمرے میں ٹہلنے لگتا۔
رات بہت بیت چکی تھی اور اس وقت کسی ڈاکٹر دوست کو فون کرنا ادب اور تہذیب کے ساتھ ساتھ میرے مزاج کے بھی خلاف تھا۔ گھر والوں کو بھی آواز دینا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ سراسیمگی اور خوف کی وجہ سے بھاگ کر کمرے میں آ جاتے جس سے ایس او پیز بھی درھم برھم ہو جاتے اور وائرس بھی ان تک پھیلنے کا اندیشہ تھا۔
ان مشکل لمحوں میں میں نے اپنی ذہنی استعداد اور روحانی طاقت پر انحصار کرنا شروع کیا۔ اچانک امید کی ہلکی سی کرن ذہن میں چمکی اور میں نے اپنا سیل فون اٹھا کر عزیز ترین دوست اور خیبر پختونخوا کے ممتاز ماہر امراض چشم ڈاکٹر بخت ثمر (جو چین کے عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر لی کے ساتھ مل کر کرونا پر اولین ریسرچ کرنے والوں میں سے ہیں ) کو وٹس ایپ پر مختصر سا پیغام اس امید کے ساتھ دیا کہ اگر وہ جاگ رہے ہوں تو رابطہ کر ہی لیں گے۔
میری خوش قسمتی کہ چند سیکنڈ کے اندر اندر انہوں نے میسج بھی پڑھا اور فوری طور پر جوابی کال کی۔
کیا ہوا؟ طبیعت کیسی ہے؟
وہ ایک ماہر معالج ہیں اور لمحہ بھر میں سب کچھ سمجھ کر مخصوص میڈیسن لینے سے لیٹنے اور بیٹھنے کے زاویے اور سانس لینے کی تکنیک تک سب کچھ احتیاط اور توجہ کے ساتھ سمجھانے لگا۔
وہ ساتھ ساتھ مجھے نفسیاتی سپورٹ دینے کے لیے میرا اعتماد بھی بڑھاتے رہے کہ گھبرانا بالکل نہیں ضروری ہوا تو میں چند منٹ میں پہنچ جاؤں گا۔ میں ان کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے (pulser oximator) مسلسل لگائے ہوئے تھا اور انہیں آکسیجن سیچوریشن اور پلس کی پوزیشن کے بارے میں بتاتا رہا تھا جو رفتہ رفتہ قابل اطمینان فگرز کی طرف جانے لگے تھے۔
تقریباً آدھ گھنٹہ گزر جانے سے پہلے ہی مجھے محسوس ہوا کہ گہرے پانیوں سے کم از کم نکل آیا ہوں اور زندگی کا تسلسل ٹوٹنے سے بچ گیا ہے۔
کرونا وائرس کے دوران کسی یخ بستہ رات کے سفاکانہ لمحوں اور بے بس ساعتوں کا ذکر میں ایسے ہی تو نہیں لے بیٹھا!
بلکہ یہی بتانا مقصود ہے کہ بعض اوقات ہم بہترین ذہانت اور سازگار فضا کے باوجود بھی کسی گرداب میں اچانک پھنس جاتے ہیں تو بقا کا سندیسہ کسی موج بلا خیز کے ہاتھ بھی ڈھونڈنے سے نہیں چوکتے چہ جائیکہ کسی غیبی طاقت یا کسی مسیحا کی آمد ! البتہ ایسے مواقع پر ذہانت منصوبہ بندی اور وسائل بھی عموماً بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں اور کوئی ’اتفاق‘ ہی آپ کو بچا لیتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نے آنکھیں بند کر لیں اور گہرے سناٹے میں ایک نزاکت کے ساتھ معاملات کو سوچنے لگا تو لبنان کے فلسفی خلیل جبران یاد آئے، جنہوں نے کہا تھا کہ دنیا میں اتفاق نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ پس منظر میں بیٹھا ’جولاھا‘ ایک تار کو دوسرے تار کے ساتھ بن رہا اور ’وہ ھی‘ واقعات کی ترتیب اور حتمی نتائج کو جانتا ہے۔
ایک وحشت انگیز تخیل کے ساتھ سوچتا رہا کہ اگر رات کے اس پہر بھی میرا معالج دوست نہ جاگتا ؟ اگر اس کا فون بند ہوتا ؟ اگر وہ پیغام نہ پڑھتا اور رابطہ نہ ہوتا ؟ اگر نیٹ ورک بند ہوتا ؟
تو؟ .........
واقعی تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
پیہم بارشیں برسنے کے بعد آج ایک چمکتا ہوا دن اور جاتے نومبر کے الوداعی لمحات تھے اور میں لگ بھگ دو ہفتے بعد ایک ہشاش بشاش طبیعت کے ساتھ گھر کی بالائی منزل پر چائے کا کپ لے کر آیا تو نومبر کی مہربان دھوپ کے ساتھ ساتھ بہت سارے عزیزوں، دوستوں، قارئین اور بہی خواہوں کی بے پایاں محبتیں، دعائیں اور ہمدردیاں مجھ پر ایک خلوص کی بارش کی مانند برستی رہیں وہ بھی بغیر کسی احسان کے۔
میں نے گھر کے ٹاپ فلور سے بائیں سمت میں دیکھا تو شہر میں زندگی کا سمندر اپنی جوبن پر آنے کو تھا، دائیں جانب نگاہ کی تو برف پوش وادی تیراہ کے پہاڑی سلسلے سے خوش شکل اور خوش آواز پرندوں کا غول محو پرواز تھا۔
گویا فطرت ابھی اس جہان رنگ و بو سے مجھے الگ کرنے پر راضی نہیں ہوئی تھی۔
اچانک سامنے پڑے سیل فون کی سکرین پر ایک ڈاکٹر دوست کا نام چمکا اور میں نے کلک کیا تو ایک لطیف قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ چلو تم بھی کیا یاد کرو گے ہم تمہیں قرنطینہ کی قید سے آزاد کرنے کا حکم جاری کرتے ہیں۔
دوبارہ لیے گئے ٹیسٹ کی رپورٹ نیگیٹیو ہے۔