آج دنیا معذور افراد کا عالمی دن منا رہی ہے۔ اس موقع پر قبائلی ضلع باجوڑ کے ان چند افراد کا ذکر کرتے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت کچھ کھو بیٹھے۔ وہ نہ تو سپاہی ہیں اور نہ ہی کسی سرکاری محکمے کے ذمہ داران بلکہ عام بچے اور نوجوان۔ ان کے حکومت سے گلے شکوے اب بھی موجود ہیں۔
انیس سالہ زینت خلیل ایف ایس سی کے طالب علم ہیں۔ 13 دسمبر 2008 ان کے لیے ایک سیاہ دن ہے۔ اس روز وہ اپنے والد کے ہمراہ گاڑی میں عنایت کلے بازار جا رہے تھے کہ عمرے کے مقام پر ایک ہیلی کاپٹر کی آواز سنائی دی۔ ان کے والد نے سکیورٹی فورسز کے جانب سے بتائے گئے طریقہ کار کے مطابق گاڑی فوراً روک کر ہاتھ اوپر کر دیے۔ لیکن دو میزائل فائر ہوئے اور اس کے بعد انہیں کچھ ہوش نہ رہا۔
زینت خلیل کے مطابق ہسپتال میں علاج کے دوران جب انہیں ہوش آیا تو ان کے دونوں پاؤں نہیں تھے۔ ’میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور ہو چکا تھا۔‘
زینت خلیل کہتے ہیں کہ ان کے والد ایک سیاست دان ہیں۔ ’میں نے یہ قربانی ملک کے لیے دی ہے لیکن ابتدا سے لے کر اب تک سارا علاج اور اب مصنوعی ٹانگیں ذاتی خرچ پر یا مخیر اداروں کے تعاون سے ممکن ہوئیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اب مصنوعی ٹانگیں لگنے کے بعد وہ کسی قدر احساس کمتری کے دلدل اور ذہنی بیماریوں سے نکل آنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ’سکول میں بچوں کو کھیلتے دیکھ کر افسوس تو ہوتا ہے مگر پھر خود سے زیادہ معذور افراد کو ذہن میں لا کر شکر ادا کرتا ہوں۔‘
زینت خلیل کہتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں کیونکہ دوران معذوری اور علاج انہوں نے ڈاکٹروں کے خدمت کا جذبہ اور بیماروں کے ساتھ مشفقانہ رویہ دیکھا اور دل میں عزم کر لیا کہ وہ بھی یہ پیشہ اختیار کریں گے تاکہ وہ مریضوں خاص کر معذور افراد کی خدمت کرسکیں۔
ان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ ہر ضلعے کی سطح پر معذور افراد کے لیے خصوصی تعلیمی کمپلیکس قائم کیا جائے، سرکاری نوکریوں میں مخصوص کوٹہ بڑھایا جائے، تعلیم، تعلیمی داخلے، پروموشن، فیس معافی اور مقررکردہ میرٹ سے مستثنی قرار دیا جائے تاکہ یہ افراد معاشرے پر بوجھ نہ بنیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خوبصورت نیلی آنکھوں کے مالک تحصیل خار کے علاقہ فجہ کے رہنے والے ایک ٹانگ سے محروم 14 سالہ سہیل عباس سے بھی ملاقات ہوئی۔
2007 کے اواخر میں باجوڑ میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران وہ محض ڈیڑھ سال کے تھے۔ انہیں واقعہ کے متعلق کم عمری کے باعث زیادہ یاد نہیں اور نہ ہی وہ ان تلخ یادوں کو دماغ میں محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔
سہیل کے والد، جو مقامی ہسپتال میں کلاس فور ملازم ہیں، کہتے کہ رمضان المبارک 2008 کی ایک سحری انہیں اب بھی یاد ہے کہ ان کے گھر والے بیدار بھی نہیں ہوئے تھے کہ ’ایک میزائل سیدھ میرے کمرے میں آ گرا۔ چارپائی میں موجود میرا ڈیڑھ سالہ بیٹا سہیل اگلے لمحے آگ کے شعلوں میں غائب ہوچکا تھا۔ ہم نے اسے جلدی سے وہاں سے نکالا اور ہسپتال پہنچایا دیا۔ اس کے باقی زخموں کا علاج تو ہوگیا مگر اس کی ایک ٹانگ لاعلاج تھی۔ پوری ٹانگ جل کر کٹ چکی تھی۔‘
سہیل کا کچھ عرصہ علاج ہوتا رہا۔ ان کے زخم تو مندمل ہو گئے لیکن وہ تاحال مصنوعی ٹانگ سے بھی محروم ہیں۔ ان کی ٹانگ ایک ایسی جگہ سہ کٹ گئی ہے جہاں مصنوعی ٹانگ لگ نہیں سکتی۔ حکومت کی جانب سے دیے جانے والے واحد اعزاز و سہولت کو بیان کرتے ہوئے ان کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔
حکومت نے انہیں 12جماعت تک مفت تعلیم دینے کا اعلان کیا تھا۔ وہ اب باجوڑ کی سب سے بہترین تعلیمی درس گاہ گورنر ماڈل سکول میں فری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر ملک و قوم کا نام روشن کریں۔
سہیل عباس بیساکھیوں کے مدد سے چلتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھ سمیت معذوروں کو سکول کالجز، دفاتر بینکس وغیرہ میں آتے جاتے وقت بہت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہذا حکومت معذور افراد کے لیے ان مقامات پر ریمپ تعمیر کرے تاکہ انہیں آسانی ہو۔ وہ تمام معذور بے روزگار افراد کے لیے وظیفے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
باجوڑ میں ایک غیرسرکاری تنظیم تنظیم بحالی معذوران باجوڑ کے بانی حضرت ولی شاہ کہتے ہیں کہ باجوڑ میں رجسٹرڈ معذور افراد کی تعداد 7500 جبکہ کل معذور افراد اس سے بھی متجاوز ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ باجوڑ میں خصوصی افراد کے لیے مختص چار فیصد کوٹہ کاغذات کی حد تک ہے۔ اس پر کسی قسم کا عمل درآمد نہیں ہوتا۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس پر تمام ڈیپارٹمنٹ عمل درآمد یقینی بنائیں تاکہ معذور افراد معاشرے پر بوجھ نہ بنیں۔
’بی بی سی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2008 سے 2017 تک بارودی سرنگیں پھٹنے کے مختلف واقعات میں 1400 سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ اسی عرصے میں 1800 سے زائد افراد معذور ہوئے۔
قدرتی وجوہات کی بنا پر معذور ہونے والے افراد اس کے علاوہ ہیں۔ ان کو بھی مناسب ماحول فراہم کرکے ملک کا مفید شہری بنایا جاسکتا ہے۔