ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق خبروں میں خواتین کی نمائندگی کے لحاظ سے دنیا کی رہنمائی کرنے والے ملک برطانیہ میں اسی حوالے سے صورت حال اب بھی ’سنگین‘ ہے۔
بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے کیے گئے اس مطالعے میں کہا گیا ہے کہ اکیسویں صدی میں خواتین کی نمائندگی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور برطانیہ کی نیوز سٹوریز میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کو تین گنا زیادہ اہم کرداروں میں پیش کیا گیا۔
محققین کا کہنا ہے کہ مطالعے کے نتائج ’مایوس کن‘ ہیں کیوں کہ چھ انگریزی زبان بولنے والے ممالک برطانیہ، امریکہ، بھارت، کینیا، جنوبی افریقہ اور نائیجیریا میں نیوز رومز اور میڈیا کی کوریج میں خواتین کی نمائندگی ’حیرت انگیز‘ حد تک کم ہے۔
ان تمام ممالک میں خواتین کو خبروں میں بطور ماہرین، مرکزی کردار یا ذرائع کے چھ گنا کم رپورٹ کیا گیا۔
برطانیہ ان تمام ممالک میں سرفہرست ہے جہاں خواتین کی خبروں میں نمائندگی 29 فیصد ہے جبکہ 30 فیصد مرکزی کردار خواتین کے تھے، تاہم یہاں اب بھی مردوں کی نمائندگی کے امکانات تین گنا زیادہ ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے صحافیوں کی اکثریت، بشمول ایڈیٹر اور میڈیا مالکان، مرد ہیں حالانکہ متعدد ممالک میں صحافت پڑھنے والے مردوں اور خواتین کی تعداد تقریباً ایک جتنی ہے۔
اس مطالعے کے مصنفین نے کہا ہے کہ خبروں میں خواتین کی کم نمائندگی کی ایک سنگین تصویر پیش کی گئی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی میں خواتین کی نمائندگی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا (اگرچہ اس میں کوئی کمی بھی نہیں ہوئی)۔
ان ممالک میں نیوز روم کے اندر صنفی توازن کے حوالے سے جنوبی افریقہ سرفہرست ہے، جہاں خواتین صحافیوں کا ورک فورس میں 49 فیصد حصہ ہے جبکہ برطانیہ میں 47 فیصد صحافی خواتین ہیں۔
اس تحقیق، جس میں 11،913 اشاعتی اداروں اور 56.9 ملین سٹوریز کا جائزہ لیا گیا، میں بتایا گیا کہ خواتین بطور ماہرین سیاسی خبروں میں خاص طور پر غائب تھیں جب کہ خواتین کے مقابلے میں مرد ماہرین کی تعداد سات گنا زیادہ تھی۔ معاشی خبروں میں بطور ماہرین مردوں کا حصہ 31 گنا زیادہ پایا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محققین نے مشاہدہ کیا کہ گذشتہ برس تمام سٹوریز میں سے صرف ایک فیصد سے بھی کم خبروں میں صنفی مساوات دیکھا گیا۔
گیٹس فاؤنڈیشن کی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کی ایمرجنسی کوریج میں بھی خواتین کی آواز کو مایوس کن حد تک دبایا گیا۔
محققین نے خواتین کی کم نمائندگی کی وجہ کو ان دقیانوسی رجحانات سے منسوب کیا ہے، جن کے مطابق جنگ اور تنازعات جیسی بحرانی صورت حال میں مرد بہتر انداز میں کام کر سکتے ہیں۔
اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ چھ ممالک میں سے پانچ میں خواتین فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کے عمل سے باہر ہیں۔
کنگز کالج لندن کے ’گلوبل انسٹی ٹیوٹ فار ویمنز لیڈرشپ‘ کی جانب سے حال ہی میں شائع ہونے والی ایک علیحدہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی ایمرجنسی پریس کوریج میں خواتین کی مہارت اور آواز کو دبایا اور نظرانداز کیا گیا ہے۔
اس تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت عامہ کے بحران سے متعلق مضامین میں صرف ایک تہائی خواتین کو شامل کیا گیا۔
© The Independent