خود پر ہونے والے ذاتی حملوں بےبنیاد الزامات، گالم گلوچ اور کردار کشی کو دوہرانا آسان نہیں لیکن ہم نے یہ سب دوہرایا کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ سب کسی اور کے ساتھ نہ ہو۔۔۔بس اب اور نہیں۔
آن لائن ہراسانی کے خلاف پاکستان کی خواتین صحافیوں کے مشترکہ بیان کے بعد قومی اسمبلی میں انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین بلاؤل بھٹو زرداری نے ان صحافیوں کو کمیٹی میں مدعو کیا۔ ہراسانی کے خلاف سالوں تنہا لڑائی لڑنے کے بعد ایک ایسے اتحاد کا حصہ بن کر میں خود ایک نئی طاقت اور نیا جذبہ محسوس کر رہی تھی۔
ہم پندرہ سے زائد خواتین صحافی اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئیں۔ ان میں سے چند ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں موجود تھیں۔ ہم میں سے ہر ایک نے ہراسانی کے واقعات اور کردار کشی پر مبنی حملوں کی داستان کمیٹی روم نمبر دو میں کھل کر سنائی۔
اس داستان میں جتنی مغلظات تھیں جتنے ذاتی اور گھٹیا نوعیت کے حملے تھے اور جس قدر الزامات اور تہمتیں تھیں اس سب کو سنانا اور دوہرانا جتنا خواتین صحافیوں کے لیے مشکل تھا اتنا ہی کمیٹی کے اراکین کے لیے بظاہر انہیں سننا تھا۔ ہر بیان کے بعد کمیٹی روم کی فضا مزید بوجھل محسوس ہونے لگتی۔ ہر بیان کے بعد بلاول بھٹو زرداری کو تسلی کے لیے الفاظ ڈھونڈنے میں تھوڑی سی دقت ہوتی۔
دو چار بار شیم شیم کی آوازوں نے کمرے کے ماحول میں ذرا ارتعاش پیدا کیا مگر پھر وہی خاموشی۔ میں سوچ رہی تھی کہ اپنا دکھ کہنے سے بندے کا دل ہلکا ہو جاتا ہے لیکن یہاں اپنی ساتھی صحافیوں کے تجربات اور ان کے واقعات سن کر دل پر بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔ بلاول بھٹو ہر بیان دینے والی خاتون سے ان تجربات سے گزرنے کی معذرت کرتے اور ہر طرح کی مدد کی یقین دہانی کراتے۔
محمل سرفراز نے کچھ انتہائی غلیظ حملوں کو خود دوہراتے ہوئے سوال کیا کہ آخر صحافت کرنا کتنا بڑا جرم ہے؟ ان کے شوہر بھی کمیٹی روم میں موجود تھے۔ ایک میسج کے بارے میں محمل نے کہا کہ ’میں اس میسج کو دو جملوں سے ذیادہ نہیں پڑھ سکی لیکن میں چاہتی ہوں کہ آپ سب یہ پیغام سنیں کہ ہمیں اظہار رائے کے حق کے استعمال پر کیا کیا کہا جاتا ہے۔‘ انہوں نے کمیٹی کے رکن محسن داوڑ سے کہا کہ وہ میسج پڑھ کر کمیٹی کو سنائیں۔ غلیظ گالیوں سے بھرا پیغام پڑھتے چار جملوں کے بعد محسن داوڑ کی زبان لڑکھڑا گئی اور وہ یہ کہہ کر خاموش ہو گئے کہ اور کیسے پڑھیں۔
عاصمہ شیرازی نے خود کو دی جانے والی گالیاں یہ کہہ کر دوہرائیں کہ وہ ساری زندگی گولی سے نہیں ڈریں لیکن گالی سے ڈرتی رہیں۔ ’اب یہ گالیاں اس تواتر سے اور اتنے عرصے سے دی جا رہی ہیں کہ ان کا ڈر بھی نہیں رہا۔‘
عنبر شمسی نے جو اپنی بیٹی کو ساتھ لائیں تھیں کہا کہ اپنی رائے کے اظہار کے جواب میں ایسے حملے قبول نہیں ہیں۔ غریدہ فاروقی نے اپنا نام ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنما سے جوڑے جانے کی داستان سنائی۔ اس بےبنیاد الزام کے بعد سے ناصرف وہ مسلسل آن لائن حملوں کی زد میں ہیں بلکہ اس وجہ سے ان کو ایک بار نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔
غریدہ نے حکومتی وزیر زرتاج گل کی جانب سے الزامات کے خلاف ایف آئی اے جانے کی کہانی بھی سنائی۔ بےنظیر شاہ نے اپنی ساکھ اور ذات پر ہونے والے حملوں کی تفصیلات کمیٹی کو بتائیں۔ ویڈیو لنک پر بھی چند خواتین نے اپنے بیانات ریکارڈ کرائے۔ ایسی کوئی گالی نہیں تھی جو ان خواتین کو نہ دی گئی ہو۔ اونچی آواز میں اپنے بیانات میں ان گالیوں کو دوہراتے کئی صحافی خواتین کے گلے ایک لمحے کے لیے رندھے کچھ کی آنکھوں میں آنسو آئے۔ بعض جملوں پر کمیٹی کے اراکین کے چہرے پر بھی غم گہرا ہوا لیکن ایک آواز اور نکتے پر سب خواتین صحافی بہت مضبوط لہجے میں یہ کہتی رہیں کہ بس اب اور نہیں اور یہ حملے ہمیں خاموش نہیں کرا سکتے۔
کمیٹی میں حکومتی جماعت اور اپوزیشن کے اراکین کے علاوہ انسانی حقوق کی وزیر شیرین مزاری بھی موجود تھیں۔ خواتین جو گالیاں انہیں ان کو کسی خبر یا تبصرے کے جواب میں دی گئیں وہ مغلظات سنتے ہوئے کمیٹی کے اراکین کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ یہ گالیاں یہ الفاظ یہ الزامات آن لائن سے دفتر اور دفتر سے نوکری کی فراغت کا باعث کیسے بنے وہ بھی داستان کا حصہ تھے۔
کیسے آن لائن دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے لوگ عاصمہ شیرازی کے گھر میں گھسے۔ یہ بھی داستان کا حصہ تھا۔ آن لائن الزامات اور تہمت لگا کر ان خواتین کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں۔ جنسی زیادتی کی دھمکیاں دیکھنا کتنا مشکل عمل ہے یہ سب کھلے الفاظ میں سب نے کمیٹی کو بتایا۔ خاندان کیسے متاثر ہوتے ہیں یہ قصہ بھی سنایا۔
ذہنی دباؤ اور خود پر سیلف سنسرشپ لگانے کا اعتراف کمزوری نہ سمجھا جائے یہ بتانا بھی ضروری تھا۔ اس لیے ہر خاتون صحافی نے یہ مطالبہ ضرور دوہرایا کہ ان حملوں کو روکنے کے لیے حکومت کارروائی کرے کیونکہ ایسے حملے انہیں خاموش نہیں کر سکتے۔ منیزے جہانگیر، ریما عمر اور بولو بھی کی فریحہ عزیز نے ان بیانات کو بنیاد بنا کر آزادی اظہار پر قدغنین لگانے کے خدشات کا بھی اظہار کیا۔
شیریں مزاری نے جنہیں جلدی جانا تھا اس لیے انہوں نے بیان میں خواتین پر ہونے والےحملوں کی غیرمشروط مذمت کی اور اپنے اور اپنی بیٹی پر ہونے والے حملوں کا ذکر بھی کیا۔ بالواسطہ انداز میں انہوں نے سیاسی جماعتوں کی منافقت کی طرف اشارہ بھی کیا جو ان پر گذشتہ حکومت میں کی جانے والی ٹرولنگ پر خاموش رہے۔ جن خواتین کو پی ٹی آئی کی جانب سے آن لائن حملوں کاسامنا تھا وفاقی وزیر نے ان خواتین سے کہا کہ وہ اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کریں جس کے بعد وہ تحقیق کریں گی اور کارروائی بھی ہوگی۔ انہوں نے اس معملے کو وزیر اعظم عمران خان کے سامنے بھی اٹھانے کا وعدہ کیا۔
اس مثبت بیان کے ساتھ ساتھ انہوں نے محمل کی دس بارہ سال پرانی ٹویٹس کی زبان پر اعتراض بھی جڑ دیا جس پر محمل نے ایک لفظ پر معذرت کی اور ساتھ یہ بھی سوال کیا کہ کیا وہ کسی کو ریپ اور قتل کی دھمکی دے رہی ہیں؟ کیا وہ کسی کو گالی دے رہی ہیں؟ ان کی ایک دہائی پرانی ٹویٹس جن پر وہ معذرت کر چکی ہیں کو بنیاد بنا کر ہراسانی کو درست نہیں ثابت کیا جانا چایئے۔ محمل نے یہ وضاحت بھی کہ کہ وہ ٹویٹس جذباتی پن کی وجہ سے ہوئیں تھیں۔
میں نے اپنے بیان میں سیاسی جماعتوں سے گزارش کی کہ ہراسانی کوئی بھی کرے کسی کے بھی خلاف ہو سیاسی جماعتوں کو ہراسانی کے خلاف یک زبان ہونا چاہیے۔ آج چند خواتین صحافی پی ٹی آئی کی شکایت لے کر آئیں ہیں تو اس معاملے کو صرف پی ٹی آئی کے خلاف نہ دیکھا جائے بلکہ ہراسانی کی روک تھام کے لیے اجتماعی کوشش کرنی چاہیے۔
ہماری جن ساتھیوں کو یہ شکایت تھی کہ ان پر پی ٹی آئی کی جانب سے آن لائن حملے ہو رہے ہیں ان کے بیانات کے دوران پی ٹی آئی کے اراکین نے ٹوکنے کی کوشش کی جس پر بلاول بھٹو نے انہیں کہا کہ آپ کو آج ان خواتین کو بغیر روک ٹوک کے سننا چاہیے۔ جب یہ بیانات ختم ہوں گے تو کمیٹی کے ارکان کو بھی جواب دینا کا موقع دیا جائے گا۔ اس پر حکومتی اراکین پہلو بدلتے رہے۔
خواتین کے بیانات کے بعد کمیٹی کے ارکان سے بلاول بھٹو نے معاملے پر تجاویز مانگیں۔ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی عطا اللہ نےکچھ مرد اینکرز کو پڑنے والی گالیوں کا ذکر کرنے کے بعد خواتین پر حملوں کی کمزور سی مذمت کی۔ وہ شاید اجلاس کے ماحول سے کی وجہ سے مذمت پر مجبور ہوئے ورنہ ان کی باڈی لینگویج سے لگ رہا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے خلاف شکایت کرنے والی خواتین سے بالکل خوش نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسے ہی پی ٹی آئی کی خواتین اراکین نے اپنی پارٹی کے دفاع میں وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ پر ہونے والے حملوں کا ذکر بھی کیا اور پھر اپنے اوپر ایسے ہی حملوں کی مثال دینے کے بعد صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
حکومتی اراکین نے یہ زبان ہو کر ہمیں یہ سمجھایا کہ یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے خواتین صحافیوں کا تجربہ کوئی انوکھا نہیں ہے۔ ن لیگ اور پی پی پی کے اراکین نے حکومتی اراکین کے رویے پر تنقید کی۔
کمیٹی میں متحد خواتین صحافیوں نے ہراسانی روکنے میں ریاستی ناکامی کے سارے کٹھے چٹھے کھولے۔ انہوں نے یک زبان ہو کر سیاسی جماعتوں کو کہا کہ اداروں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے منظم مہم چلا کر صحافیوں کو خاموش کرانے کی کوششیں مذموم ہیں۔ ان کو روکنا سیاسی جماعتوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
کمیٹی کے اس اجلاس سے یہ توقع کرنا کہ اس کے بعد خواتین کے خلاف ہراسانی کے واقعات رک جائیں گے شاید حقیقت پسندانہ عمل نہ ہو۔ لیکن اس اتحاد نے ایک امید کی کرن ضرور جگائی ہے۔ خواتین کو تقسیم کر کے ان کے کردار پر انگلیاں اٹھا کر ہراسانی کے الزامات کو متنازعہ بنانا جتنا آسان پہلے تھا اس یکجہتی کے بعد وہ کافی مشکل ہو جائے گا۔
خواتین صحافیوں کے مشترکہ بیان اور آواز اٹھانے نے جیسے راکھ میں دبی کئی چنگاریوں کو ہوا دے دی ہے۔ ایک طرف وہ خواتین جن کو خود بھی آن لائن ہراسانی اور گالی بلوچ کا سامنا رہا وہ اس بیان کی حمایت میں کھل کر سامنے آئیں تو دوسری طرف وہ لوگ جو ان حملوں کو جائز سمجھتے ہیں وہ اس بیان پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں اور خواتین صحافیوں کو ہی ان حملوں کا ذمہ دار ٹھرا رہے ہیں۔ کچھ اسے پی ٹی آئی کے خلاف مہم قرار دے رہے ہیں۔
کہنے والے جو بھی کہیں ہراسانی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا بڑھتا شور معاشرے میں تبدیلی کی شنید ہے۔ مکمل کامیابی میں شاید ابھی بھی کچھ برس لگ جائیں۔