سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک ایسے نوجوان کی دھوم مچی ہوئی ہے جن کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی شاعری وزن اور دوسرے فنی اصولوں سے عاری ہے لیکن پھر بھی انہوں نے لوگوں کے دل موہ لیے ہیں اور ان کا انداز بیان لوگوں کو اتنا بھا گیا کہ اب انہیں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تقریبات میں بطور مہمان خصوصی بلایا جاتا ہے۔
کون ہے یہ ’شاعر؟‘ کہاں سے تعلق رکھتا ہے اور شاعری کے علاوہ کرتا کیا ہے؟ یہی تجسس ہمیں اس کے گاؤں تک لے گیا۔
معلوم ہوا کہ فرمان کسکر نامی یہ لڑکا ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی کے ایک چھوٹے قصبے قمرگئی کے رہائشی 15 سالہ فرمان چھ بہن بھائیوں میں پہلے نمبر پر اور آٹھویں جماعت کے طالب علم ہیں۔
پشتو زبان میں ان کی قواعد سے عاری شاعری کی ویڈیوز لاکھوں میں دیکھی جا رہی ہے۔ سرسوں کے کھیت میں شوٹ کی گئی ایک ویڈیو میں انہوں نے اپنی شاعری ’اس دل کے ساتھ میں کیا کروں‘ سنائی۔ یہ ویڈیو اب تک چار لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ لوگ ویڈیو ایپ ’ٹک ٹاک‘ پر بھی فرمان کی چھوٹی چھوٹی ویڈیوز ڈالتے رہتے ہیں۔
ان ویڈیوز کو دیکھنے والے جہاں واہ وا کر رہے ہیں، وہیں ایک ناقد محمد بلال جلالی نے کہا کہ ایسے ’نوجوانوں نے پشتو شاعری کا غرور توڑ دیا ہے۔ اس سے قبل یہ عزت کا کام سمجھا جاتا تھا۔‘
فرمان کسکر کے والد ریاض تمباکو فروخت کر کے بس اتنا کما لیتے ہیں کہ گھر کی دال روٹی چل جاتی ہے۔ لیکن ریاض کی مہمان نوازی کی عادت نے آج کل انہیں محلے کی ایک دکان سے قرض لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ وہ فرمان سے ملنے آنے والے تمام پرستاروں کو چائے بسکٹ کے بغیر نہیں جانے دیتے۔
فرمان سے جب ہم نے اس کے گھر جانے کی بات کی تو وہ شرما کر بولے کہ وہ گھر والوں کے سامنے بات نہیں کر سکتا۔ گھر سے باہر تمام سوالوں کے جواب دے کر آخر میں وہ ہمیں بڑی مستعدی سے گھر کا راستہ دکھانے لگے۔ وہ اجے دیوگن کی طرح موٹر سائیکل کو دائیں بائیں گھماتے ہوئے ہمیں گاؤں کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے گزارتے ہوئے اپنے گھر تک لے آئے۔
دو کمروں پر مشتمل اس گھر میں انہوں نے ایک گائے بھی کھونٹے سے باندھی ہوئی تھی۔ فرمان کی امی ایک خوش مزاج اور مہمان نواز خاتون ہیں۔ انہوں نے جلدی سے میز اپنے دوپٹے سے صاف کرتے ہوئے میرے سامنے رکھی۔ اگرچہ پہلے میں نے شربت پینے سے انکار کیا لیکن ان کے خلوص کی خاطر میں نے وہ شربت پی لیا اور اس کی تعریف بھی کی۔
مکان کے ایک کونے میں چند ایوارڈز رکھے ہوئے تھے جو فرمان کو حال ہی میں ایک یونیورسٹی کی جانب سے ملے تھے۔ انہیں پشاور اور اسلام آباد میں نوجوان اپنی نجی تقریبات میں بطور مہمان خصوصی بلاتے ہیں اور ان کی شاعری سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ تمام تر شاعری فرمان کی اپنی سوچ کا نتیجہ ہے جو ردیف، قافیے اور کسی اور قاعدے کی محتاج نہیں ہے۔
فرمان کا کہنا ہے کہ انہیں شہرت پہلی ویڈیو سے ملی جو انہوں نے سرسوں کے کھیت میں ریکارڈ کی تھی۔ ’دراصل میں اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کرنا چاہ رہا تھا، لیکن میرا موبائل میرے دوست کے ہاتھ لگ گیا جس نے میری اجازت کے بغیر وہ ویڈیو فیس بک پر ڈال دی۔ بعد میں لوگوں کی فرمائش پر میں نے مزید ویڈیوز بنائیں۔‘
فرمان کے موبائل پر بےتحاشہ کالز آ رہی تھیں، جن کو وہ ہربار بےاعتنائی سے کاٹ دیتے تھے۔ مجھے اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ چاہے شاعری جیسی بھی ہو، قسمت کی دیوی وقتی طور پر ان پر مہربان ہو گئی ہے۔
عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسی شہرت کم عرصے کے لیے ہوتی ہے۔ 2016 میں طاہر شاہ نامی ایک گلوکار نے بھی ’اینجل‘ گیت کی وجہ سے کافی شہرت پائی لیکن وہ وقتی ثابت ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد ان کا دوسرا گانا بھی سامنے آیا لیکن کوئی خاص پذیرائی نہ پا سکی۔
اس وقت تو فرمان مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن کیا یہ مقبولیت اور شہرت پائیدار ہو گی یا پھر شہابِ ثاقب کی طرح وقتی ثابت ہو گی جو ایک جھلک دکھا کر اندھیرے میں غائب ہو جاتا ہے؟