خیبر پختونخوا کے دوسرے بڑے ہسپتال خیبر ٹیچنگ ہسپتال (کے ٹی ایچ) میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب مختلف شعبوں کو آکسیجن کی سپلائی کی بندش کے واقعے میں ہسپتال ڈائریکٹر سمیت سات افراد کو معطل کر دیا گیا ہے۔
واقعے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ مکمل کر کے وزیر اعلیٰ کو بھیجوا دی ہے، جس میں آکسیجن کی فراہمی کی بندش کی وجوہات سمیت ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، میں لکھا گیا ہے کہ ہسپتال میں آکسیجن کی سپلائی کی بندش سے کرونا وارڈ میں چھ افراد ہلاک ہوئے اور دیگر یونٹس میں اگر ہلاکتیں ہوئیں ہیں تو ان کو تفصیلی رپورٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔
رپورٹ میں آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی کے ساتھ ہسپتال کا معاہدہ ختم ہونے کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق ہسپتال کے ساتھ معاہدہ 2017 میں ختم ہوا اور اس کے بعد معاہدے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
جب معاہدہ موجود تھا تو اس کی شق نمبر پانچ کے مطابق آکسیجن پلانٹ میں کسی بھی مسئلے کے درپیش آنے کی صورت میں آکسیجن کمپنی ہسپتال کو آگاہ کرے گی۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ہسپتال کے آکسیجن ٹینک میں دس ہزار کیوبک میٹر آکسیجن بھرنے کی صلاحیت موجود ہے تاہم کمپنی نے کبھی بھی ٹینک کو مکمل طور پر نہیں بھرا ہے۔
واقعے کی رات سے ایک دن پہلے یعنی چار دسمبر کو کمپنی نے صرف تین ہزار 40 کیوبک میٹر آکسیجن سپلائی کی تھی۔
عملہ غیر حاضر تھا
تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ واقعے کی رات جب آکسیجن کمی کا مسئلہ سامنے آیا تو سپلائی مینیجر نے پلانٹ کے کنٹرول روم کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کسی نے فون نہیں اٹھایا اور رات کو ڈیوٹی پر معمور دو ملازم پلانٹ میں موجود نہیں تھے جب ٹینک کا گیج زیرو تک گر گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح رپورٹ کے مطابق پلانٹ کے ایک اور اسسٹنٹ جو سپلائی مینیجر کو کسی بھی مسئلے کی صورت میں رپورٹ دے گا، انہوں نے بھی مسئلے کو رپورٹ نہیں کیا۔
ہسپتال میں آکسیجن بیک اپ نظام موجود نہیں
کسی بھی ہسپتال میں آکسیجن کی سپلائی کے لیے ایک متبادل نظام بھی موجود ہوتا ہے اور مرکزی آکسیجن نظام میں خرابی کی صورت میں متبادل استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تاہم رپورٹ کے مطابق ہسپتال میں آکسیجن سپلائی کے لیے کوئی بیک اپ نظام موجود نہیں ہے حالانکہ ٹیکنیکل میمورنڈم کے مطابق ہسپتال کو یہ تجویز دی گئی تھی کہ آکسیجن بیک اپ نظام کو بنایا جائے۔
رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی کے سپلائی چین کی مزید تحقیقات کرائی جائے گی۔
تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اس سارے واقعے میں ذمہ دار سات افراد جس میں ہسپتال ڈائریکٹر (ہسپتال انتظامی امور کے سربراہ)، مینیجر سپلائی چین، فیسیلٹی مینیجر، بائیو میڈیکل انجینئر، آکسیجن پلانٹ اسسٹنٹ اور پلانٹ کے دیگر دو ملازمین کو معطل کر دیا گیا ہے۔
صوبائی مشیر اطلاعات کامران بنگش نے رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز نے 24 گھنٹوں میں تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو جمع کرا دی ہے جس میں تمام حقائق سامنے رکھے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رپورٹ پر مزید تجزیہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے زیر صدارت ایک اجلاس میں کیا جائے گا اور عوام کو اس بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں چونکہ آکسیجن کمپنی کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ان کے ساتھ معاہدہ ختم ہوا تھا اور وہ آکسیجن ضروری مقدار سے کم سپلائی کر رہے تھے، تو انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے کمپنی کے سربراہ کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔
سربراہ کو وٹس ایپ پر بھی پیغامات بھیجے گئے ہیں لیکن اس رپورٹ کی اشاعت تک انہوں نے اس مسئلے پر کمپنی کا موقف نہیں دیا۔