’وہ آکسیجن کے لیے تڑپ رہا تھا اور اپنے منہ سے آکسیجن ماسک اتارنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ اسے قدرتی ہوا تو مل سکے لیکن ڈاکٹرز کو پتہ نہیں تھا کہ آکسیجن کا مسئلہ پیدا ہوا ہے اور میرا پھول جیسا بچہ تڑپتے تڑپتے دنیا سے چلا گیا۔‘
یہ کہنا تھا پشاور شہر میں ریگی سے تعلق رکھنے والے سمیع اللہ کا، جن کا دو سالہ خون کے کینسر میں مبتلا بیٹا صارم پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے چلڈرن آئی سی یو میں دو دنوں سے زیر علاج تھا۔
سمیع اللہ نے الزام لگایا کہ ان کا بیٹا ہفتے اور اتوار کے درمیانی شب ہسپتال میں آکسیجن سپلائی معطل ہونے کی وجہ سے وفات پا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا گذشتہ آٹھ مہینوں سے ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج تھا لیکن وہاں پر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ڈاکٹروں نے اسے سرکاری ہسپتال کے ٹی ایچ ریفر کر دیا تاکہ اسے انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل کرایا جائے۔
سمیع اللہ نے بتایا کہ ’دو دنوں سے وہ آئی سی یو میں موجود تھا اور ڈاکٹرز کہہ رہے تھے کہ اس کی حالت بہتر ہو رہی ہے، آج یعنیٰ اتوار کو اسے خوراک دینا بھی شروع کریں گے لیکن جس ہسپتال میں آکسیجن کے لیے آئے تھے اسی ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کا واقعہ پیش آ گیا۔‘
سمیع اللہ نے، رات کو جس وقت آکسیجن سپلائی بند ہو گئی تھی، کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میرے بچے کے ساتھ وارڈ میں اس کی ماں موجود تھی، جب وہ آکسیجن ماسک ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا تو میری اہلیہ نے مجھے فون کیا کہ بچے کی حالت ٹھیک نہیں۔‘
سمیع اللہ کے مطابق جب وہ وارڈ پہنچے تو ڈاکٹر بچے کو سی پی آر(سانس کو بحال کرنے کے لیے مریض کے سینے کو دبانے کا طریقہ کار) دے رہے تھے۔ ’رات ڈھائی بجے وہاں پر موجود ڈاکٹرز نے جب آکسیجن سپلائی چیک کی تو ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ آکسیجن سپلائی بند ہے لیکن اسی دوران میرا بچہ وفات پا چکا تھا۔‘
جب انڈپینڈنٹ اردو نے کے ٹی ایچ کے چلڈرن وارڈ میں ڈیوٹی سر انجام دینے والے ایک ڈاکٹر کو بچے کا کلینکل ریکارڈ بھیجا تو انھوں نے اس پر رائے دیتے ہوئے بتایا کہ بچے کو بلڈ کینسر تھا جس کی وجہ سے اسے سانس لینے میں مشکل پیش آرہی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ بچے کی حالت سنگین تھی اور کلینکل ریکارڈ کے مطابق اس کی زندگی کے چند ہی دن رہ گئے تھے، بنیادی بات یہ ہے کہ مریض کو جو بھی مسئلہ تھا لیکن انتہائی نگہداشت کے مریض کو ہمیشہ آکسیجن درکار ہوتی ہے اور آکسیجن کی معطلی سے موت ہو جانا مرنے کی وجوہات میں شامل ہو جاتی ہے۔
آکسیجن سپلائی کا معاملہ کیا تھا؟
صوبے کے دوسرے بڑے سرکاری ہسپتال کے ٹی ایچ میں رات ایک بجے سے لے کر تقریباً پانچ بجے تک آکسیجن سپلائی معطل رہی۔ صوبائی مشیر اطلاعات کامران بنگش کے مطابق آکسیجن کی معطلی کی وجہ سے چھ افراد ہلاک ہوئے۔ بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے ’اس افسوس ناک واقعے کی تفتیش کے لیے ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کو ہدایت جاری کر دی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہسپتال کا بورڈ آف گورنرز 48 گھنٹے میں تفتیش مکمل کر کے رپورٹ صوبائی حکومت کو پیش کرے گا۔’ اس حوالے سے صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا نے بتایا کہ اگر صوبائی حکومت انکوائری سے مطمئن نہیں ہوئی تو آزاد تحقیقات کرائی جائے گی اور تمام حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آکسیجن سپلائی معطل ہونے کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے رات کو موقعے پر موجود ایک ڈاکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کسی کو پتہ نہیں تھا آکسیجن سپلائی بند ہو گئی ہے اور جوں ہی پتہ چلا ڈاکٹروں کے وٹس ایپ گروپس میں پیغامات آنے شروع ہو گئے کہ فلاں وارڈز جلدی پہنچا جائے، وارڈز میں ڈاکٹرز کوشش کر رہے تھے کہ انتہائی نگہداشت کے مریضوں کو کسی ایسے وارڈ منتقل کیا جائے جہاں آکسیجن سلینڈرز موجود ہیں۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ بعض مریضوں کو دوسرے ہسپتالوں میں شفٹ کیا گیا جبکہ بعض کو ایمبولینسز میں موجود آکسیجن لگائی گئی۔
وہ سوالات جن کے جوابات ابھی باقی ہے
کے ٹی ایچ کے ایک ڈاکٹر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رات ایک بجے سے صبح پانچ بجے تک آکسیجن سپلائی بند رہی لیکن بندش کی وجوہات ابھی سامنے آنا باقی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہسپتال کو یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا سپلائی پلانٹ میں کوئی مسئلہ تھا یا پلانٹ کے آپریٹر رات کو سو گئے تھے۔
اسی طرح انکوائری میں اس سوال کا جواب بھی آنا باقی ہے کہ کیا ہسپتال میں آکسیجن سپلائی کا بیک اپ موجود ہے یا نہیں۔
صوبے کے دوسرے بڑے سرکاری ہسپتال کے ٹی ایچ میں ہفتے کی رات تک کرونا (کورونا) مریضوں کے لیے مختص تمام 90 بستر بھرے ہوئے تھے۔ان 90 مریضوں میں سے ہسپتال ترجمان محمد فرہاد کے مطابق 18 مریض bilevel positive airway pressure پر تھے۔ Bipap مصنوعی سانس کا وہ نظام ہے جس میں مریض کو اس وقت آکسیجن پر رکھا جاتا ہے جب انھیں فوری وینٹی لیٹر کی ضرورت نہ ہوں۔فرہاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آکسیجن کی سپلائی بند ہونے سے کرونا کے آئسولیشن وارڈز اور بچوں کے امراض کے یونٹس متاثر ہوئے۔
ریسکیو 1122 کا کردار
اس ساری صورتحال کو کنٹرول کرنے میں خیبر پختونخوا ریسکیو 1122 نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ رات کو ڈیوٹی پر معمور ایک ریسکیو اہلکار نے بتایا کہ انہیں تقریباً رات ایک بجے ایمرجنسی کی اطلاع ملی، جس کے بعد ان کی ٹیم 18 ایمبولینسز کے ساتھ کے ٹی ایچ پہنچ گئی۔
انہوں نے بتایا کہ آکسیجن سپلائی کرونا آئسولیشن وارڈ میں زیادہ بند رہی تو انہوں نے وہاں سے مریضوں کو نکال کر باقی ہسپتالوں میں منتقل کرنا شروع کیا، تاہم انہیں مسئلہ اس وقت درپیش آیا جب باقی ہسپتالوں نے ان مریضوں کو لینے سے انکار کردیا۔
’ہم مریضوں کو لے کر دوبارہ کے ٹی ایچ پہنچ گئے۔ اس دوران ہمارے پاس کسی مریض کا انتقال نہیں ہوا۔ہماری ایمبولینسز میں بیک وقت تین مریضوں کو آکسیجن کی سپلائی دی جا سکتی ہے لہٰذا ہم نے کچھ مریضوں کو ایمبولینس ہی میں آکسیجن دی اور باقیوں کو ہسپتال کے دیگر وارڈز میں شفٹ کر دیا۔’