'جیل میں ہمارے وارڈ میں ایک طرف نو اور دوسری طرف 10 خواتیں سوتی ہیں۔ دو دن پہلے ایک خاتون قیدی کو کرونا ہوگیا تو انہیں علیحدہ وارڈ میں رکھا گیا ہے، کرونا کا ڈر تو لگا رہتا ہے مگر جیل کے اندر فرمائش تو نہیں چلتی۔'
فضا بتول ایک بینک کو جعلی چیک دینے کے الزام میں آٹھ دن سے کراچی میں خواتین اور بچوں کے لیے مخصوص جیل میں قید ہیں۔
پیر کو سٹی کورٹ میں پیشی کے موقع پر انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جیل میں کھانے پینے، رہائش اور پانی کی سہولیات تو بہتر ہیں مگر کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے بعد سماجی دوری رکھنا ممکن نہیں ہے۔
ڈکیتی کے الزام میں کراچی کی لانڈھی جیل میں گذشتہ دو سال سے قید کاٹنے والے رحیم بخش کو دیگر پانچ قیدیوں کے ساتھ ایک زنجیر سے باندھ کر سٹی کورٹ میں پیشی پر لایا گیا تھا۔
رحیم بخش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ہمارے وارڈ میں 80 قیدی ایک ساتھ رہتے ہیں، کرونا کا ڈر تو ہے مگر کچھ کر نہیں سکتے۔ ماسک بھی اپنے پیسوں سے خریدنا پڑتا ہے، لیکن میں ہر روز نیا ماسک نہیں خرید سکتا۔'
ایک سوال کے جواب میں رحیم بخش نے کہا کہ انھیں کھانے پینے کی تو سہولیات میسر ہیں مگر جیل میں قیدیوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث وہ پریشان ہیں۔
انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی جانب سے 'صحت کا حق اور پاکستانی جیلوں میں کووڈ 19' کے عنوان سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام ملک میں کرونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش سے انتہائی زیادہ تعداد کم کرنے میں ناکام رہے اور اب وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز اور اموات کے پیش نظر قیدیوں کو خطرناک صورت حال کا سامنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام نے کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے باوجود سپریم کورٹ کی سطح پر بنیادی نوعیت کے فیصلے نہ ہونے اور جیل حکام کی انتظامی ناکامیوں کی وجہ سے وبا کے ابتدائی دنوں میں قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
جنوبی ایشیا میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مہم چلانے والی رمل محی الدین کہتی ہیں: 'کرونا وائرس کے کیسز اور اموات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورت میں پاکستانی جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش سے زیادہ تعداد ٹک ٹک کرتے ٹائم بم کی طرح ہے۔ حکام کو لازمی طور پر پہلی لہر سے سبق سیکھتے ہوئے فوری طور پر جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں نمایاں کمی لانی چاہیے۔'
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ وائرس میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار ایسے قیدیوں کی فہرستیں جاری کریں جنہیں قبل از وقت، عارضی یا مشروط طور پر رہا کیا جا سکتا ہے جبکہ تمام ایسے قیدیوں کو فوری اور غیرمشروط طور پر رہا کیا جائے جنہیں صرف ان کی جانب سے اپنے انسانی حقوق کے پرامن استعمال پر گرفتار کیا گیا۔ دوسری جانب جیلوں میں قید خواتین اور بچوں کی جلد رہائی کے حکم پر بھی عمل درآمد کیا جائے۔
وفاقی محتسب کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کے گنجائش سے زیادہ ہونے کی شرح 134 فیصد ہے جو کسی بھی جیل کے اعتبار سے بہت بلند ہے۔ اگست 2020 کے اختتام تک ملک بھر کی جیلوں میں قید 79603 افراد میں سے کم از کم 2313 کرونا وائرس میں مبتلا پائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے پاکستان کی جیلوں میں سہولتوں کے فقدان اور انتظامی مسائل بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔ گنجائش سے زیادہ قیدی ہونے کی وجہ سے بعض جیلوں کے ایک کمرے میں، جہاں زیادہ سے زیادہ تین قیدی رکھے جاسکتے ہیں، وہاں چھ سے 15 قیدیوں کی موجودگی کا امکان ہے۔
اس رپورٹ کے لیے انٹرویو میں بعض قیدیوں نے بتایا کہ انہیں شفٹوں میں سونا پڑتا ہے کیونکہ تمام قیدی ایک وقت میں فرش پر نہیں لیٹ سکتے۔
بہترین وقتوں میں بھی پاکستانی جیلوں میں خوراک اور پانی تک رسائی اور صفائی کی صورت حال خراب تھی۔ قیدیوں کو صاف اور تسلسل کے ساتھ پانی کی عدم فراہمی کا تشویشناک مسئلہ بھی دیکھا گیا ہے جبکہ بہت سے قیدیوں نے بتایا ہے کہ انہیں پینے اور منہ ہاتھ دھونے کے لیے بھی وافر پانی نہیں دیا جاتا۔
رمل محی الدین کہتی ہیں: 'پاکستان میں جیلوں کے مخدوش حالات دیرینہ مسئلہ ہیں جنہیں حکومت میں ہر سطح پر کئی سال تک نظر انداز کیا گیا، لیکن کووڈ 19 کی وبا نے جیلوں کے ابتر حالات کا پول کھول دیا ہے اور قیدیوں، جیل کے عملے اور مجموعی طور پر پوری کمیونٹی کی زندگیوں کو لاحق خطرات سامنے آ گئے ہیں۔'
'پاکستانی حکام کو ان انتظامی مسائل کو حل کرنے اور جیلوں کے بنیادی ڈھانچے پر دباؤ کم کرنے سمیت جیل کی دیواروں کے پیچھے آئے روز ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنا ہو گا۔'
جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے ترجمان علی حیدر حبیب کے مطابق اس رپورٹ کی تیاری کے لیے لاہور، پشاور، حیدرآباد، کراچی اور راولپنڈی کی سینٹرل جیلوں کے علاوہ لاہور کی کیمپ جیل اور سیالکوٹ کی ڈسٹرکٹ جیل سمیت سات جیلوں کا 11 بار دورہ کیا گیا۔
علی حیدر حبیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا:'اس رپورٹ کے لیے قیدیوں، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے جیل حکام، جیل کے ڈاکٹروں اور دیگر حکام سے انٹرویو کرکے نتائج لیے گئے ہیں۔'
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل اور جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی رپورٹ پر درعمل دیتے ہوئے جیل خانہ جات سندھ کے ترجمان عاطف وگھیو نے بتایا کہ یہ رپورٹ اگرچہ پورے پاکستان کے جیلوں کی ہے، مگر سندھ کی جیلوں کی صورت حال یکسر مختلف ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں عاطف وگھیو نے بتایا کہ جیل اصلاحات سندھ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں کل 27 جیل ہیں، جن میں سے اس وقت 24 کھلی اور باقی تین بند ہیں۔ بند جیلوں میں سندھ کے شہر بدین میں واقع اوپن جیل بھی شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عاطف وگھیو کے مطابق: 'سندھ کی اس وقت کھلی ہوئی 24 جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش 13،538 ہے جب کہ اس وقت صوبے کی جیلوں میں 18،115 قیدی ہیں، جن میں 4577 قیدی گنجائش سے زیادہ ہیں۔ مگر یہ تعداد صرف چار جیلوں یعنی کراچی کی سینٹرل جیل اور ملیر، لاڑکانہ اور شکارپور کی جیلوں میں زیادہ ہے، باقی ضلعی جیلوں اور دیگر چھوٹی جیلوں میں گنجائش سے کم قیدی موجود ہیں، جبکہ سندھ میں تین مزید نئی جیلیں بھی بنائی جارہی ہیں۔'
جیلوں میں گنجائش نہ ہونے کے باعث قیدیوں کے باری باری سونے اور پانی کی عدم دستیابی کے حوالے سے سوال پر عاطف وگھیو نے بتایا کہ 'سندھ کی جیلوں میں ججوں پر مشتمل ٹیم آتی رہتی ہے، اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسی بات چھپ سکے۔ '
انہوں نے بتایا کہ 'صوبے کی جیلوں میں 18،115 قیدیوں میں سے 14،132 کا کرونا ٹیسٹ کرایا گیا ہے، جن میں سے 1742 قیدیوں کے نتیجے مثبت آنے پر انہیں قرنطینہ میں منتقل کردیا گیا۔ ان میں سے اب تک 1563 قیدیوں کا ٹیسٹ منفی آچکا ہے۔ اس وقت صوبے بھر میں 112 قیدی کرونا سے متاثر ہیں۔ اس دوران ایک قیدی کا انتقال بھی ہوا، مگر اس کی وجہ ہارٹ اٹیک تھا۔'
ایک سوال کے جواب میں عاطف وگھیو نے بتایا کہ سندھ کی جیلوں میں باہر سے کھانے لانے پر سختی سے ایس او پیز کا خیال کیا جارہا ہے۔
مذکورہ رپورٹ میں سندھ کے خواتین جیلوں کی صورت حال کے بارے میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل سندھ جیل خانہ جات برائے خواتین و بچہ جیل شیبا شاہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: 'یہ رپورٹ شاید پاکستان بھر کی جیلوں کی جنرل رپورٹ ہوسکتی ہے، میرے زیر انتظام آنے والی چار خواتین جیلوں اور چار بچوں کی جیلوں کی صورتحال رپورٹ سے بالکل مختلف ہے۔'
شیبا شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں، مگر میرے زیر انتظام جیلوں میں قیدی رکھنے کی گنجائش 300 ہے اور اس وقت ہمارے پاس صرف 155 قیدی ہیں۔ ان کے لیے پینے کا پانی فلٹر ہوتا ہے، اس کے علاوہ ان کے کھانے، پینے اور رہائش کے علاوہ قیدیوں کی تفریح کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت خواتین جیل میں صرف ایک قیدی کرونا مثبت ہیں، جنہیں الگ وارڈ میں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے، جب کہ بچوں کی جیل میں 14 قیدی بچے قرنطینہ میں ہیں۔ 'ہم نے جیل میں کرونا ایس او پیز کا خاص خیال رکھا ہے، نئے آنے والے قیدی 14 دن کے لیے علیحدہ وارڈ میں قرنطینہ کرتے ہیں، جس کے بعد ان کا ٹیسٹ کرایا جاتا ہے اور رپورٹ منفی آنے کے بعد ہی انہیں جیل میں منتقل کیا جاتا ہے'۔
بقول شیبا شاہ: 'پیشی پر جانے والے قیدیوں کو بھی مکمل طور پر سینیٹائیز کرنے کے بعد ہی جیل کے اندر جانے دیا جاتا ہے۔ قیدیوں کی خاندان والوں سے ملاقات بھی ہفتے میں ایک بار کروائی جارہی ہے۔'