سانحہ آرمی پبلک سکول کو چھ سال پورے ہو گئے ہیں، لیکن جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا، وہاں کے مکینوں کی آنکھیں آج بھی اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتی ہیں۔
ان ہی میں سے ایک تیمور حفیظ ہیں جو پشاور کی ورسک روڈ پر قائم آرمی پبلک سکول سے ملحقہ اس گلی کے رہائشی ہیں جہاں سات مسلحہ دہشت گردوں نے ایک سوزوکی وین میں داخل ہو کر سکول کی دیوار پھلانگ کر اندر گھس گئے تھے۔ اس حملے میں آٹھ سے 18 سال کی عمر تک کے 132 طلبہ اور سکول عملے کے 17 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تیمور حفیظ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ان کے اپنے بچے اس سکول میں نہیں پڑھ رہے تھے لیکن اس واقعے کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ وہ بھاگ کر سکول گئے اور اپنی بچیوں کے نام لے کر پکارتے رہے۔
وہ بتاتے ہیں: ’میں اپنی گلی میں سے گزر رہا تھا کہ میں نے گاڑی میں آگ لگی دیکھی، لوگ گاڑی کی بجائے سکول کے گیٹ کی جانب بھاگ رہے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے فوجیوں نے تمام راستے اور دکانیں بند کروا دیں۔ تین دن تک ہمارا علاقہ بند تھا، سودا سلف لانے کے لیے ہم بمشکل پیدل ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے تھے۔‘
تیمور حفیظ نے کہا کہ جن گھروں کے سامنے دہشت گردوں نے گاڑی میں دھماکہ کیا وہ لوگ اس سانحے پر اب مزید بات نہیں کرتے۔
’وہ اپنے گھروں کے دروازے بند رکھتے ہیں۔ یہ جو نالہ نظر آرہا ہے، پہلے اس کے اوپر کنکریٹ تھی، یہ ایک بند گلی تھی، سامنے ایک دیوار بنی تھی، اس سے اگے خالی جگہ کے پاس سکول ہے جس کی دیوار اتنی اونچی نہیں تھی جتنی اب ہیں۔ نہ ہی ان کے اوپر خاردار تاریں لگی تھیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سانحے کے بعد آرمی پبلک سکول کی دیواریں اونچی کر دی گئیں اور ان پر خار دار تار بھی لگوا دی گئی۔ سکول کی تمام اندرونی وبیرونی راستوں پر چوکس پہرہ لگا رہتا ہے۔
تاہم علاقہ مکین اب دھیمی سرگوشیوں میں پشیمانی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اگر یہ پہرہ واقعے سے پہلے لگا دیا جاتا تو اتنا بڑا جانی نقصان کبھی نہ ہوتا۔
آرمی پبلک سکول کی موجودہ صورت حال
چھ سال گزر جانے کے بعد آرمی پبلک سکول میں زندگی معمول کی طرف آگئی ہے۔ سانحے کے بعد اس سکول سے پڑھائی مکمل کرنے والے طلبہ اب دوسری تعلیمی درس گاہوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جبکہ نئے آنے والے طلبہ اور عملہ یہاں پڑھنے اور کام کرنے کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔
جب سانحے کے اثرات کے حوالے سے اس سکول کی اساتذہ اور ملازمین سے انڈپینڈنٹ اردو نے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اب پہلے سے کافی بہتر محسوس کر رہے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک ٹیچر عالمہ غیاث جو خود بھی اس میں زخمی ہوئی تھیں نے کہا کہ اب وہ کافی حد تک نارمل زندگی کی طرف واپس آچکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’سائیکو تھراپی بھی مکمل ہو چکی ہے، جو ادویات میں لیتی تھی وہ اب نہیں لیتی۔ ہاں البتہ اب بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو پوری طرح سے اس صدمے سے نہیں نکلے ہیں۔‘