پاکستان میں ایک سکول پر ہونے والے حملے میں زخمی ہونے والے ایک نوعمر طالب علم کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا ہے۔ اس حملے میں 150 بچے ہلاک ہو گئے تھے۔
احمد نواز اس وقت صرف 14 سال کے تھے، جب شدت پسندوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں یہ قتل عام کیا تھا۔
ان کا چھوٹا بھائی اس ظالمانہ حملے میں ہلاک ہو گیا تھا جبکہ انہوں نے خود کو مردہ ظاہر کرکے اپنی جان بچائی تھی۔ گو کہ ان کے بائیں بازو میں بھی ایک گولی لگی تھی۔
سکول سے ریسکیو ہونے کے بعد ان کے زخم اتنے شدید تھے کہ انہیں برطانیہ کے شہر برمنگھم لے جانا پڑا جہاں ان کا ہنگامی علاج کیا گیا۔
تب سے ہی وہ یہاں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم ہیں۔ انہوں نے وہ گریڈز حاصل کر لیے ہیں جو انہیں آکسفوڈ میں فلسفہ اور تھیولوجی جیسے مضامین پڑھنے کا اہل بناتے ہیں۔
احمد نواز اب 19 سال کے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'جب دہشت گرد میرے سکول میں بچوں پر حملہ کرنے آئے تو وہ لوگوں کو تعلیم سے روکنا چاہتے تھے۔ یہ حقیقت کہ میں نے دنیا کی چند بہترین میں سے ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے، انہیں یہ پیغام بھیجتا ہے کہ وہ ایسے مظالم سے ہمیں ترقی کرنے سے نہیں روک سکتے۔'
وہ ملالہ یوسفزئی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، جنہوں نے حال ہی میں فلسفے، سیاسیات اور معاشیات کی مضامین میں اپنی تعلیم اسی یونیورسٹی سے مکمل کی ہے۔
ملالہ کو بھی 15 سال کی عمر میں ان کے آبائی علاقے میں طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مہم چلانے پر سر میں گولی مار کر شدید زخمی کردیا تھا۔
احمد نواز کو آکسفورڈ کے لیڈی مارگریٹ ہال میں داخلہ ملا ہے۔ یہ وہی کالج ہے جس سے 23 سالہ ملالہ نے گریجویشن کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حملے کے بارے میں بات کرتے ہوئے احمد نواز نے دی ٹائمز کو بتایا کہ وہ سکول میں موجود سینکڑوں بچوں کے ساتھ ابتدائی طبی امداد کی تربیت کے لیے اسمبلی ہال میں موجود تھے۔
انہوں نے بتایا کہ بندوق بردار لوگوں کو 'ایک ایک کرکے' گولیاں مار رہے تھے اور ان سے نچلی قطاروں میں موجود طالب علموں کو مارتے ہوئے ان کی جانب بڑھ رہے تھے۔
نواز نے بتایا: 'میں فرش پر لیٹا ہوا تھا، میں نے سر اٹھا کے اوپر دیکھا تو انہوں نے میرے دوست کو گولی مار دی تھی۔ مجھے احساس ہوا اب میری باری ہے۔ انہوں نے میرے سر سے آدھا میٹر دور بندوق کی نال رکھ کے میرے سر کا نشانہ لیا۔ میں نے اسی لمحے دائیں کروٹ لی اور گولی میرے بازو کے اوپری حصے میں لگی۔'
نواز کے مطابق اس کے بعد وہ بندوق بردار اگلے بچے کی طرف بڑھ گیا اور گولیاں مارنی شروع کر دیں۔
احمد نواز کا کہنا ہے کہ 'جان بچانے کی کوشش عمل میں آئی۔ میں نے سوچا کہ اگر میں نے کوئی حرکت کی یا آواز پیدا کی تو میں مارا جاؤں گا۔'
حملے کے بعد انہیں سکول سے ریسکیو کیا گیا لیکن وہ بے ہوش تھے۔ جب وہ ہسپتال پہنچے تو ان کا بہت زیادہ خون بہہ چکا تھا۔
برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال منتقل کرنے سے پہلے پشاور کے ہسپتال میں ان کے بازو کے چھ آپریشن ہوئے تاکہ اسے کاٹنے سے بچایا جا سکے۔
تب سے ہی احمد برطانیہ میں مقیم ہیں۔ انہیں یہاں نوجوانوں میں شدت پسندی کے خلاف بولنے اور تمام بچوں کے لیے تعلیم کے حق کو فروغ دینے پر کئی ایوارڈز دیے جا چکے ہیں۔
14 اگست کو پاکستان کے یوم آزادی کے موقعے پر ملک کے نوجوانوں کے لیے احمد نواز کا خصوصی پیغام:
© The Independent