فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرنے والی عالمی طاقتیں اور خود فلسطینی کئی دہائیوں سے تنظیمِ آزادیِ فلسطین ( پی ایل او) کو ان کی اکلوتی نمائندہ تنظیم مانتے چلے آئے ہیں، تاہم فلسطینی قیادت کے اندرون ملک [فلسطین] کئے جانے والے اقدامات کے بعد یہ اہم ادارہ قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے۔ داخلی طور پر منقسم فلسطینیوں کو دیکھ کر اگرچہ خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ناممکن عمل دکھائی دیتا ہے، تاہم آج بھی فلسطینی صدر کو قانونی حیثیت دلوانے کے لیے پی ایل او کا فریم ورک ہی سند جواز کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
ماضی میں فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی کا حق پی ایل او کی جدوجہد کا محور رہا ہے۔ اسرائیلی تسلط کے خلاف فلسطینی جدوجہد میں حق وطن واپسی سب سے زیادہ متنازعہ نقطہ رہا ہے۔ تنظیمِ آزادیِ فلسطین نے فلسطینیوں کے وطن واپسی کے حق پر ہمیشہ دو ٹوک موقف اپنایا، لیکن بدقسمتی سے اب یہ معاملہ تنظیم کی ترجیحات میں شامل دکھائی نہیں دیتا۔
پی ایل او کے نفس ناطقہ یاسر عرفات مرحوم نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’انہیں اپنے آبائی قصبے [صفد] واپس جانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔‘ یہ علاقہ اسرائیل میں واقع ہے۔ یاسر عرفات ہمیشہ اپنے اسرائیلی مہمانوں کو یقین دلاتے رہے ہیں کہ ’فسلطینی اپنی مجوزہ آزاد ریاست کو مہاجرین سے نہیں بھرنا چاہتے۔‘ یہ بیانیہ فلسطینی قیادت کی ترجیحات میں مہاجرین کی وطن واپسی کے حق سے دست برداری کا اعلان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یاسر عرفات نے معاہدہ اوسلو کے وقت اس معاملے کو حتمی مذاکرات کے مرحلے تک موقوف رکھنے پر حامی بھری تھی۔
عملی طور پر فلسطینی سفارت خانے، نمائندگان اور وزارت خارجہ فلسطینی اتھارٹی کی دنیا میں نمائندگی کرتے ہیں۔ اس طرح فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم کے طور پر پی ایل او کا روایتی کردار ختم ہو گیا۔ پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی سے فلسطینیوں کی نمائندگی کا مینڈیٹ واپس لیتے وقت بیرون ملک مقیم فلسطینیوں کو’تارکین وطن‘ کا نام دیا گیا اور اب رام اللہ میں فلسطینی انتظامیہ کی وزارت خارجہ ہی فلسطینیوں کی نمائندہ سمجھی جاتی ہے، جیسے دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانے وہاں مقیم پاکستانی تارکین وطن کی نمائندگی کرتے ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور ’اعلان مبادی‘ پر دستخط[1993] کے موقع پر فلسطینی قیادت نے یہ بات یقینی بنائی تھی کہ معاہدہ پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان طے پائے؛ جبکہ تیار کی جانے والی سرکاری دستاویزات میں پی ایل او کی جگہ فلسطینی اتھارٹی کے الفاظ دھوکے سے شامل کرائے گئے۔
پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین کے مقابلے میں برائے نام فلسطینی ریاست کے صدر کی حیثیت مقدم بنا دی گئی۔ اس نام نہاد فلسطینی ریاست کو قابض اسرائیلی حکام تسلیم کرتے ہیں اور نہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اسے فلسطینیوں کی نمائندہ ریاست مانتی ہے۔ ایسے میں پی ایل او کی حیثیت ایک نمائشی ٹول سے زیادہ نہیں رہی، یہی وجہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر؛ نیشنل کونسل کے چیئرمین اور کونسل کے دوسرے آزاد ارکان کو خاطر میں لائے بغیر؛ من چاہے فیصلے کر رہے ہیں۔
اس تمام صورت حال سے ہٹ کر پی ایل او کی تشکیل نو کے مطالبے کی بازگشت وقتاً فوقتاً آج بھی سنائی دیتی رہتی ہے۔ فلسطینی سیاسی جماعتوں کے درمیان مصالحت کے وقت طے پانے والی شرائط میں ’پی ایل او میں اصلاحات‘ ایک اہم نقطہ تھا، لیکن حقیقت میں ایسا کوئی اصلاحاتی ایجنڈا عملی روپ اختیار نہ کر سکا کیونکہ فلسطینی اتھارٹی روزمرہ امور کی انجام دہی کے لیے درکار فنڈز کے لیے وزارت مالیات کی منظوری کی محتاج ہے اور ایسی کمزور تنظیم کی موجودگی میں فلسطینی صدر خود کو زیادہ آسودہ سمجھتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تنظیمِ آزادیِ فلسطین ( پی ایل او) کی اعلیٰ عہدہ دار، فلسطینیوں کی تجربہ کار مذاکرات کار اور خواتین کے حقوق کی علم بردار حنان عشراوی گذشتہ ہفتے یہ کہتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئیں ’کہ پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی کو فیصلہ سازی کے عمل میں دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ وہ خود بھی اس انتظامی کمیٹی کی رکن رہی ہیں۔ عمر رسیدہ صدر محمود عباس 15 ارکان پر مشتمل اس کمیٹی کے سربراہ ہیں اور وہ شاذ ہی اس کے اجلاس بلاتے ہیں۔‘ انہوں نے اپنے استعفے میں فلسطین کے سیاسی نظام میں وسیع تر اصلاحات کا مطالبہ بھی کیا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ صدر مخصوص افراد پر مشتمل اپنی ٹیم کے ذریعے تمام اہم فیصلے کر رہے ہیں۔ ان فیصلوں کو کسی کمیٹی میں زیر بحث نہیں لایا جاتا۔ اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی کوارڈی نیشن معطلی ہو یا پھر اس سال کے اوائل میں اسرائیلی کسٹمز کے توسط سے جمع ہونے والے محصولات لینے سے انکار، ہر دو فیصلوں پر پی ایل او کی متعلقہ باڈیز کو قطعاً اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
حال ہی میں دونوں فیصلے حیران کن انداز میں پی ایل او کو بتائے بغیر ہی واپس لے لیے گئے جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس تزویراتی اہمیت کے فیصلوں میں کس طرح پی ایل او کی متعلقہ کمیٹیوں کو جل دیتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔
فلسطین نیشنل کونسل کے بزرگ عہدہ دار حمادہ فروانہ کے مطابق حنان عشراوی کے پی ایل او سے استعفی کی ایک وجہ پہلی انتفاضہ کے مرحلے پر فلسطین کاز کا پرچار کرنے والے رہنماؤں کو اہم فیصلوں میں شریک نہ کرنا ہے۔ فروانہ کے مطابق عشراوی کا استعفیٰ فلسطین کے اندر بے لاگ رائے رکھنے والے فلسطینیوں کے لیے کاری ضرب ہے۔ یہ استعفیٰ فلسطینی خواتین کے لیے بھی ایک طمانچے سے کم نہیں کیونکہ حنان عشراوی پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی میں فلسطینیوں کی نصف آبادی [یعنی خواتین] کی اکلوتی نمائندہ تھیں۔ وہ کونسل میں فلسطینی مسیحیوں کی بھی نمائندگی کرتی تھیں، جو فلسطینی معاشرے کا جزو لاینفک ہیں۔
حنان عشراوی کا استعفیٰ فلسطینی قیادت کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے، جس سے اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ آج تنظیم آزادی فلسطین کا فورم اپنی نمائندہ حیثیت کھو چکا ہے۔ اہم قومی امور سے متعلق فیصلہ سازی ایک فرد واحد کر رہا ہے، جس میں عوام کے منتخب فورمز کے نمائندوں کا کوئی عمل دخل باقی نہیں رہا۔
عشراوی نے میڈیا کے لیے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا کہ’فلسطین کے سیاسی نظام کی تجدید اور تنظیم نو کی ضرورت ہے، اس میں نوجوانوں، خواتین اور اعلیٰ اہلیت کے حامل پیشہ ور حضرات کو شامل کیا جانا چاہیے۔‘ انہوں نے کہا: ’میں اس بات میں یقین رکھتی ہوں کہ درکار اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے اور پی ایل او کو اس انداز میں فعال بنانے کے ضرورت ہے کہ وہ اپنا حقیقی کردار ادا کرسکے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ فلسطین کے اندر اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تیرہ ملین فلسطینیوں کو حقیقی معنوں میں ایک نمائندہ پلیٹ فارم دینے کی خاطر پی ایل او میں دور رس نتائج کی حامل اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ جتنی جلدی اصلاحات کے ذریعے پی ایل او کو حقیقی معنوں میں فلسطینیوں کا دوبارہ نمائندہ پلیٹ فارم بنایا جائے گا، اتنی ہی جلدی ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکے گا۔