20 ویں صدی میں دو بدترین سمندری حادثات پیش آئے۔ مشہور زمانہ برطانوی بحری جہاز ٹائی ٹینک اور آرایم ایس لوزیتانیا ڈوب گئے۔ ان دونوں حادثوں میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ دونوں دفعہ ان میں ایک ملاح بچ نکلا تھا۔ یہ ملاح دونوں حادثات میں بچ جانے والا واحد شخص تھا۔
یہ دعویٰ اس ملاح کے رشتہ داروں کی جانب سے سامنے آیا ہے۔
جارج بوکیمپ نامی مذکورہ ملاح نے وائٹ سٹار لائن نامی جہاز راں کمپنی کو اپنی عمر کے بارے میں جھوٹ بول کر ٹائی ٹینک پر فائرمین کی ملازمت حاصل کی تھی۔ ان کا کام جہاز کی بھٹی میں آگ روشن رکھنا تھا۔
1912 میں ٹائی ٹینک برفانی تودے سے ٹکرا کرغرق ہوگیا۔ جارج کو سمندری حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے برطانیہ میں ہونے والی انکوائری میں گواہی کے لیے بلایا گیا۔ ان کا بیان تحریری شکل میں ریکارڈ کا حصہ ہے۔
اپنے بیان میں جارج نے کہا: ’بحری جہاز کے برفانی تودے سے ٹکرانے پر میں نے ایک گرج دار آواز سنی۔ انجن روم چھوڑنے کی اجازت ملنے تک سمندر کا پانی میری کمر تک پہنچ چکا تھا۔‘
جارج جہاز کے عرشے پر پہنچے اور مسافروں کو جان بچانے والی کشتی پر سوار ہونے میں مدد دی۔ اس کے بعد وہ خود بھی کشتی میں بیٹھ کر محفوظ مقام کی طرف روانہ ہوگئے۔
جارج نے تفتیش کاروں کو بتایا: ’میں بحری جہاز کے عرشے کی دائیں جانب پہنچا۔ میرا ایک پاؤں عرشے اور دوسرا ہنگامی حالت میں جان بچانے والی کشتی پر تھا۔ میں عورتوں اور بچوں کو کشتی میں سوار ہونے میں مدد دے رہا تھا۔ ہمیں کشتی کو جہازسے دور رکھنے اور پانی کو اندر داخل ہونے سے روکنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔‘
جارج کا کہنا تھا کہ ہم نے چپو اٹھائے تاکہ زیادہ سے زیادہ دور چلے جائیں اور ڈوبتے ہوئے جہاز کے ساتھ ڈوبنے سے بچ سکیں۔
جارج کے مطابق انہوں نے سب سے پہلے جہاز کے اگلے حصے کو ڈوبتے ہوئے دیکھا۔ انہیں جہاز کا پچھلا سرا بھی نظر آرہا تھا جو کچھ ہی دیر بعد ڈوب گیا۔ ’جب جہاز ڈوبا تو ایک زوردار آواز سنائی دی۔ اُس وقت مجھے لوگوں کے چیخنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ہم دوسروں کی مدد کے لیے واپس جاتے لیکن کشتی میں گنجائش نہیں تھی۔‘
لائف بوٹ نمبر 13 میں سوار افراد کو مسافربردار بحری جہاز آرایم ایس کارپاتھیا نے بچایا۔ اس بحری جہاز نے مشکل حالات میں ٹائی ٹینک کے 705 مسافروں کو بچانے کے لیے بڑی ہمت کا مظاہرہ کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جارج بوکیمپ کے خاندان کے مطابق وہ پہلی عالمی جنگ کے دوران ڈوبنے والے بحری جہاز آرایم ایس لوزیتانیا پر بھی سوار تھے۔
لوزیتانیا اپنے وقت میں دنیا کا سب سے بڑا مسافر بردار بحری جہاز تھا جسے 1915 میں جرمنی کی یوبوٹ نے تارپیڈومار کےغرق کردیا تھا۔
دوسرے سمندری حادثے کے بعد جارج بوکیمپ نے مبینہ طور پر کہا: ’میرا دل بڑے بحری جہازوں سے بھرگیا ہے۔ میں چھوٹے جہازوں پر کام کرنے جارہا ہوں۔‘
مشرقی یارک شائر کے علاقے ہل (Hull) سے تعلق رکھنے والے جارج بوکیمپ کے خاندان نے انہیں ان کی موت کے 75 سال بعد خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
جارج کی پوتی سوزین نارٹن کہتی ہیں کہ انہیں اپنے دادا کے اس کردار پر فخر ہے جو انہوں نے تباہ ہوتے بحری جہاز کے مسافروں کو بچانے میں ادا کیا۔
لندن میں پیدا ہونے والے جارج یوکیمپ بعد میں ہل (Hull) کے علاقے میں منتقل ہوگئے تھے جہاں انہوں نے دس برس تک سامان بردار اور دوسرے بحری جہازوں پر کام کیا۔ اس کے بعد وہ ساؤتھمپٹن چلے گئے جہاں 1944 میں وہ 72 برس کی عمرمیں وفات پاگئے۔