لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں قیام پاکستان اور اس کے بعد آباد ہونے والے بیشتر افغانوں کو شکایت ہے کہ شناختی کارڈ نہ ہونے یا نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے بلاک کیے جانے کے باعث ان کے بچوں کے فارم ب نہیں بنتے اور نتیجتاً بچے میٹرک یا انٹر سے آگے نہیں پڑھ پاتے اور محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
لاہور میں مقیم افغان پختون برادری کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم اور وزیراعظم کی جانب سے نادرا کو نئے شناختی کارڈ بنانے اور بلاک کیے گئے کارڈز کو کھولنے کی ہدایات کے باوجود ابھی تک اس حوالے سے کسی قسم کے عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔
پختون کمیونٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری عبدالوکیل خان عرف شادی خان کے مطابق پنجاب کے مختلف بازاروں میں کروڑوں روپے کا کاروبار کرنے والے پختون افغانوں کو بنیادی حق فراہم نہیں کیا جا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'بیشتر پختون ٹیکس ادا کرنے کے لیے فائلر بننا چاہتے ہیں لیکن ان کے شناختی کارڈ بلاک ہیں۔ دوسری جانب تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی مشکلات کے باعث والدین بھی پریشان ہیں۔'
شادی خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کا خاندان قیام پاکستان سے پہلے لاہور آیا اور یہاں سکونت اختیار کرلی۔ وہ لاہور کی یونین کونسل نمبر 203 سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔ ’افسوس کی بات یہ ہے کہ میرے خاندان کے 55 سے زائد افراد کے شناختی کارڈز 2017 سے بلاوجہ بلاک ہیں، جس کی وجہ سے نہ تو بینک اکاؤنٹ کھلوا سکتے ہیں، نہ بچوں کو داخلے مل رہے ہیں اور نہ ہی پاسپورٹ بن رہے ہیں۔‘
یہ صرف شادی خان کی ہی کہانی نہیں۔ ایسے کئی افراد اور خاندان ہیں، جو شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ خان کالونی کے رہائشی 19 سالہ مومن خان کو انٹر کے بعد والد کا شناختی کارڈ نہ ہونے اور ب فارم نہ ہونے کی وجہ سے بی اے میں داخلہ نہیں مل سکا اور اب وہ سیلز مین کی نوکری کر رہے ہیں۔
شفیق آباد کے رہائشی گل نواز نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی، والد کا شناختی کارڈ بلاک ہونے کی وجہ سے وہ آگے تعلیم جاری نہیں رکھ سکے اور اب کپڑے کی دکان پر کام کرتے ہیں۔ اسی طرح نصیر آباد کے رہائشی 15 سالہ جلال خان نے بتایا کہ وہ ب فارم نہ ہونے کے باعث میٹرک کا امتحان نہیں دے سکے کیونکہ ان کی رول نمبر سلپ ہی جاری نہیں ہوئی۔
نصیرآباد کے ہی 17 سالہ عتیق خان نے بتایا کہ وہ میٹرک پاس کرکے رکشہ چلا رہے ہیں کیونکہ ریکارڈ نہ ہونے پر انہیں کہیں داخلہ نہیں ملا۔ پختون کمیونٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری شادی خان نے مزید بتایا کہ ’ایسے ہی ایک نوجوان کبیر احمد پاکستان سپر لیگ میں شامل ٹیم لاہور قلندر کے کھلاڑی ہیں لیکن پاسپورٹ نہ بننے کی وجہ انہیں پہلے افغانستان اور پھر وہاں سے بذریعہ روڑ دبئی جانا پڑا تھا۔‘
'اسی طرح ذیشان خان انڈر 16کرکٹ میں منتخب ہوئے مگر خاندان کا ریکارڈ نہ ہونے کے باعث انہیں پاسپورٹ جاری نہیں کیا جا رہا۔' شادی خان نے مزید بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے نادرا کو افغان پختونوں کے شناختی کارڈ کھولنے کا حکم دے رکھا ہے لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ ’کبھی کہا جاتا ہے کہ افغان سینٹر جائیں، وہاں جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ نادرا جائیں۔ لاہور میں سالوں سے رہنے کے باوجود سینکڑوں پختون افغانوں کو معلوم ہی نہیں کہ شناختی کارڈ کیا ہوتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہم نے بچوں کے داخلوں سے متعلق معاملہ ڈپٹی کمشنر لاہور کے سامنے بھی اٹھایا ہے لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔
مسئلہ حل کیوں نہیں ہوپا رہا؟
شادی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب پاکستان میں شناختی کارڈ کو کمپیوٹرائز کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو نادرا نے پختون افغانوں کا پرانا ریکارڈ اپ گریڈ ہی نہیں کیا، جس کے باعث بعد میں بہت سے لوگوں کے شناختی کارڈز بلاک کردیے گئے۔
ساتھ ہی انہوں نے الزام عائد کیا کہ نادرا کے بعض افسران بھاری رقم لے کر کاروبار کرنے والے افغان پختونوں کے بند شناختی کارڈ کھولتے ہیں۔ ’بعض لوگوں نے پیسے دے کر اپنے شناختی کارڈ کھلوائے، لیکن اب وہ منظر عام پر آنے یا شکایات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہمارے پاس ایسے کئی ثبوت موجود ہیں کہ لوگوں سے کئی کئی لاکھ روپے لے کر نادرا افسران نے کارڈ کھولے ہیں۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’لاہور کے ایک تجارتی مرکز اوریگا سینٹر میں کپڑے کے تاجروں سے شناختی کارڈ کھلوانے کے عوض نادرا افسران اپنے اہل خانہ کے لیے سوٹ تک لیتے ہیں۔‘
شادی خان نے بتایا کہ ’شناختی کارڈ بلاوجہ بند کیے جانے کی دلیل اس سے بڑی کیا ہوگی کہ میرے خاندان کا سکیورٹی اداروں سے کلیئرنس سرٹیفکیٹ موجود ہے، میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر چیئرمین کا الیکشن تک لڑچکا ہوں لیکن میرا بھی کارڈ بلاک کر دیا گیا جو بڑی مشکل سے کھلوایا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے الزام عائد کیا کہ نادرا کے بعض افسران اور عملے نے اس معاملے کو کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا: ’جب پیسے دیے جاتے ہیں تو پھر شناختی کارڈ پر سے اعتراضات ختم کیسے ہوجاتے ہیں اور اگر اعتراضات ہوتے ہیں تو ہمیں بتائے کیوں نہیں جاتے؟‘
ان کے مطابق ہزاروں افراد ایسے ہیں جو شناختی کارڈ کھلوانے کے منتظر ہیں مگر ان کی کوئی نہیں سن رہا۔ ’اس معاملے میں بھی سیاست کی جاتی ہے۔ پنجاب میں افغان پختونوں کے ووٹ لینے کے لیے امیدوار بھی ان کے شناختی کارڈ کھلوانے کے وعدے کرتے ہیں مگر بعد میں کوئی نہیں پوچھتا۔‘
نادرا کیا کہتا ہے؟
جب اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ترجمان نادرا لاہور محمد فرخ سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’جن افراد کا ریکارڈ نہیں ہوتا یا کوئی اعتراض ہوتا ہے، صرف ان ہی کے شناختی کارڈ بلاک کیے جاتے ہیں۔ اس کا فیصلہ وزارت داخلہ کرتی ہے اور نادرا احکامات پر عمل کرتا ہے۔ جہاں تک افغان پختونوں کے نئے شناختی کارڈ بنانے یا کھولنے کا معاملہ ہے، اس کا فیصلہ تو حکومت نے کرنا ہے کہ کن کو شناختی کارڈ دینا ہے اور کن کو جاری نہیں ہوسکتا۔‘
ترجمان نادرا کے مطابق نادرا ایک وفاقی ادارہ ہے، جس کا کام صرف پاکستانی شہریوں کے شناختی کارڈ بنانا اور ریکارڈ رکھنا ہے۔ افغان پختونوں کے شناختی کارڈز کے لیے افغان سینٹر سے رجوع کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کا اختیار انہیں حاصل ہے۔
محمد فرخ کا مزید کہنا تھا کہ جن افراد کے نئے شناختی کارڈ نہ بننے کے مسائل ہیں وہ مطلوبہ ریکارڈ فراہم کر کے اپنے کارڈ باآسانی بنوا سکتے ہیں جبکہ جن افراد کے شناختی کارڈ بلاک ہیں وہ اعتراضات دور کرکے اپنا کارڈ کھلوا سکتے ہیں جبکہ شناختی کارڈ بلاک ہونے کی صورت میں ب فارم بھی جاری نہیں ہوسکتا۔