عارف اللہ خان نے باجوڑ میں ویکسین پر عدم اعتماد کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ قدامت پسند قبائلی عمائدین کا خیال ہے کہ جن بچوں کو یہ ویکسین دی گئی وہ ’بدتمیز‘ ہو گئے اور وہ اسلامی روایات اور اقدار کو اہمیت نہیں دیتے۔
عارف اللہ خان پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پولیو ویکسین کی مہم کے دوران گھر گھر جا کر بچوں کو قطرے پلانے میں مصروف تھے کہ اچانک انہوں نے قریبی پہاڑیوں سے فائرنگ کی آواز سنی۔
افغانستان کی سرحد کے قریب باجوڑ میں پانچ سال قبل پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا: ’یہ اتنا اچانک ہوا اور اتنی شدید فائرنگ کی گئی کہ یہ ایک دھماکے کی طرح محسوس ہوا۔‘
عارف اللہ نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس مزید بتایا کہ ایک گولی ان کی ران کو چیرتی ہوئی باہر نکل گئی اور وہ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے۔
’میرا بچپن کا دوست اور ویکسینیشن مہم میں میرا ساتھی روح اللہ میری آنکھوں کے سامنے زمین پر خون میں لت پت پڑا تھا۔ میں ہل بھی نہیں پا رہا تھا۔ روح اللہ نے میرے سامنے دم توڑ دیا۔‘
پاکستان میں ویکسین مہم آسان کام نہیں ہے بلکہ اسے دنیا میں سب سے مہلک مہم سمجھا جاتا ہے۔ عسکریت پسندوں اور بنیاد پرست مذہبی گروہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پولیو ویکسین مغربی سازش ہے تاکہ وہ مسلم بچوں کو بانجھ یا انہیں مذہب سے دور کردیں۔ 2012 سے پولیو ویکسینیشن کی مہم میں حصہ لینے والے 100 سے زیادہ ہیلتھ ورکرز، ویکسینیٹرز اور سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔
پاکستان کو درپیش یہ تشدد ایشیا، افریقہ، مشرق وسطی اور لاطینی امریکہ کے متعدد غریب اور ترقی پذیر ممالک میں ویکسینیشن کے حوالے سے درپیش مشکلات کی ایک مثال ہے اور ایک ایسے وقت جب انہیں کرونا وائرس کے خلاف اپنی آبادیوں کو ویکسین کی فراہمی جیسے مشکل کام سے نپٹنا ہے۔
ان ممالک کو صرف ویکسین کی خریداری یا امیر اور ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں تاخیر سے اسے حاصل کرنے کا ہی مسٔلہ درپیش نہیں ہے بلکہ انہیں کئی اور رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے۔
ناقص انفراسٹرکچر کا اکثر مطلب یہ ہوتا ہے کہ دور دراز علاقوں تک سڑکیں ہی نہیں ہیں اور نہ ہی ریفریجریٹرز کے لیے بجلی کا انتظام جو ویکسین کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔
جنگیں اور داخلی شورش ویکسین ورکرز کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ بدعنوانی سے فنڈنگ متاثر ہوسکتی ہے اور ویکسینیشن مہم کے منصوبہ سازوں کو بعض اوقات متعدد مسلح گروہوں سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔
یونیسیف کے ادارے ’گلوبل ایمیونائزیشن‘ کے نائب سربراہ بینجمن شریبر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’ویکسینیشن کے لیے سب سے مشکل علاقے وہ ہیں جو تنازعات کی لپیٹ میں ہیں اور جہاں تشدد کا پھیلائو ویکسینیشن کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ دوسرے وہ علاقے جہاں ویکسین کے بارے میں غلط خبریں پھیلائی جاتی ہیں جس سے کمیونٹی کی اس عمل میں شرکت کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔‘
بہت ساری ممالک عالمی چیرٹی تنظیم COVAX پر انحصار کررہی ہیں۔ اس تںظیم کا مقصد دنیا میں تمام افراد کو ویکسین تک مناسب رسائی کو یقینی بنانا ہے حالانکہ اس کی مالی اعانت پہلے ہی کم ہوئی ہے۔
شریبر نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ یونیسیف کووڈ 19 کی ویکسین کی خریداری اور اس کی تقسیم کے لیے کام کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے ادارے نے ویکسینیشن میں استعمال ہونے والی نصف ارب سرنجوں کا ذخیرہ کر لیا ہے اور یہ ویکسین کی منتقلی کے لیے 70 ہزار ریفریجریٹرز بھی فراہم کرے گا جو زیادہ تر شمسی توانائی سے چلتے ہیں۔
یونیسیف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینریٹا فور نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ ایجنسی کا مقصد اگلے سال ایک ماہ کے دوران 850 ٹن کرونا ویکسین منتقل کرنا ہے۔ یہ مقدار دوسری ویکسینز کے مقابلے میں دگنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہرین کا کہنا ہے دنیا کے کئی ممالک میں صورتحال وسیع پیمانے پر مختلف ہوسکتی ہے۔
یمن میں حوثی باغیوں اور حکومت سے وابستہ دھڑوں کے مابین چھ سال سے جاری جنگ کے دوران صحت کا نظام تباہ ہوگیا ہے۔
یمن میں اس موسم گرما میں پندرہ سالوں بعد پولیو کا پہلا پھیلاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔ یونیسیف نے بتایا کہ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ویکسین کی ٹیمیں گذشتہ دو سالوں سے یمن میں کام نہیں کرسکی ہیں۔
ہیضے اور خناق کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ یمن کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ امریکی حکام نے 2021 میں یہاں ممکنہ قحط سے متعلق خبردار کیا ہے۔
یمن میں صحت کے صرف نصف ادارے ہی فعال ہیں۔ سڑکوں اور بجلی کے نیٹ ورک اور دیگر بنیادی ڈھانچے تباہ ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب حوثیوں نے بھی ویکسین پروگراموں میں رکاوٹ پیدا کی ہے۔
دوسری جانب پاکستان ہے جہاں ویکسین مہم کے خلاف اس وقت عدم اعتماد کو ہوا ملی جب 2011 میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کی نشاندہی کرنے کے لیے ویکیسن مہم کا سہارا لیا تھا۔
پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا کے بعد دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں پولیو کو اب تک ختم نہیں کیا جا سکا۔
پولیو ویکسینیشن مہم کے عہدیدار ڈاکٹر رانا صفدر نے کہا کہ صرف اس سال ملک میں پولیو کے 82 نئے کیسز سامنے آئے ہیں اور اس کی بڑی وجہ کرونا وبا کے باعث ویکسینیشن کے عمل میں تعطل ہے۔
رانا صفدر نے بتایا کہ باجوڑ کا علاقہ جہاں عارف اللہ خان کو گولی ماری گئی تھی، اب بھی ایک خطرناک ترین علاقہ ہے۔
عارف اللہ خان نے اپنے علاقے میں ویکسین پر عدم اعتماد کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ قدامت پسند قبائلی عمائدین کا خیال ہے کہ جن بچوں کو یہ ویکسین دی گئی وہ ’بدتمیز‘ ہو گئے اور وہ اسلامی روایات اور اقدار کو اہمیت نہیں دیتے۔
انہوں نے کہا ، کووڈ 19 سے ہر کوئی خوفزدہ ہے لیکن انھیں مغربی چیزوں پر اعتبار نہیں ہے۔
خان نے کہا کہ ’چند روزہ پولیو ویکسین مہم میں وہ دس ہزار روپے (56 ڈالر) تک کما لیتے ہیں اور خاندان پالنے کے لیے انہیں پیسوں کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ ممکنہ طور پر کرونا ویکسین فراہم کرنے کے لیے بھی کام کریں گے۔
’لیکن پہلے میں یہ تصدیق کروں گا کہ آیا وہاں کوئی خطرہ ہے یا نہیں۔‘